اسلام آباد (اے بی این نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ریاست علی آزاد نے اے بی این کے پروگرام تجزیہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 31 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے رائے دی تھی کہ اس معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے۔ ان کے مطابق اُس وقت فل کورٹ تشکیل دینا زیادہ موزوں تھا اور آج بھی اس کی ضرورت ہے،
لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ریاست علی آزاد نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرتے ہوئے ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں فائل کی گئیں جن میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ موجودہ آئینی بینچ خود اسی ترمیم کا نتیجہ ہے، اس لیے ضروری تھا کہ پہلے 26ویں ترمیم کی آئینی حیثیت اور قانونی سقم کو دیکھا جاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک مشہور مقدمے وکلا محاذ برائے تحفظ دستور بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان میں یہ اصول طے کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی ترمیم عدلیہ کی آزادی یا آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو، یا آرٹیکل 8 سے 28 کے دائرے میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرے، تو اسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے پہلے سے قانون موجود تھا، اسی بنیاد پر فل کورٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں :بھارتی فوجی قیادت کی سوشل میڈیا نے بینڈ بجا دی،کرنل صوفیہ قریشی کے بیان کی ٹرولنگ