اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمداللہ نے اے بی این نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت فی الحال خیبرپختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ایک سیاسی اور جمہوری جماعت ہے جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ “ہمارے ادارے موجود ہیں جو پالیسی طے کرتے ہیں، اور اس وقت ہمارا مؤقف یہی ہے کہ ہم خیبرپختونخوا حکومت کو گرانے یا تبدیلی لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔”
حافظ حمداللہ نے علی امین گنڈاپور کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 16 ماہ کی کارکردگی صفر رہی ہے، تاہم وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا فیصلہ پی ٹی آئی یا صوبائی حکومت کے بس میں نہیں بلکہ ان قوتوں کے پاس ہے جنہوں نے انہیں عہدے پر بٹھایا ہے۔ ان کے مطابق، “جب تک یہ قوتیں راضی ہیں، علی امین وزیراعلیٰ رہیں گے، اور اگر این او سی واپس لے لیا گیا تو تبدیلی ممکن ہے۔”
وفاقی سیاست پر بات کرتے ہوئے حافظ حمداللہ نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی ‘سیم پیج’ پالیسی کے تحت چل رہی ہے۔ “ملک میں جب تک یہ سیم پیج برقرار رہتا ہے، حکومتیں قائم رہتی ہیں۔ جیسے ہی اس میں دراڑ آتی ہے، تبدیلی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔”
شہباز شریف کی حکومت کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سیم پیج پر رہنے میں ماہر ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا، اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے محسن نقوی کے ممکنہ وزیراعظم بننے کی خبروں پر کہا کہ اگر فیصلہ کرنے والی قوتیں چاہیں تو ایسا ممکن ہے، مگر اس کے لیے سیاسی جماعتوں میں بڑے پیمانے پر سمجھوتے کرنا ہوں گے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے ممکنہ رول بیک اور 27ویں ترمیم کی بحث پر انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر یہ قابل قبول نہیں ہونا چاہیے، لیکن اگر ملک میں “لو اور دو” کی سیاست جاری رہی تو سب کچھ ممکن ہے۔
پی ٹی آئی سے ممکنہ رابطوں کے بارے میں حافظ حمداللہ نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے ذریعے کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کو مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ “بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ دوبارہ سیاست میں واپس آئے۔ آج عمران خان جیل میں ہیں تو بھی کامیاب سمجھے جا رہے ہیں۔”
اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ عہدہ اسی جماعت کو ملنا چاہیے جس کے پاس پارلیمان میں اکثریت ہو۔ “جے یو آئی کے پاس اس وقت اکثریت نہیں ہے، اس لیے یہ عہدہ کسی اور جماعت کا حق بنتا ہے۔”
مزید پڑھیں:الیکٹرک ٹرام روٹس سامنے آگئے، جانیے کہاں سے کہاں تک ؟