اسلام آبا( اے بی این نیوز )سینئر صحافی نعیم اشرف بٹ نے اے بی این نیوز کے پروگرام “تجزیہ” میں سیاسی منظرنامے پر نہایت اہم اور چشم کشا گفتگو کی ہے۔ ان کے مطابق موجودہ سیاسی فضا میں کئی غیر معمولی سرگرمیاں اور اندرونی اختلافات نمایاں ہو رہے ہیں، جو مستقبل قریب میں طاقت کے توازن کو بدل سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا استعفیٰ بظاہر ایک سادہ معاملہ دکھائی دے رہا ہے، مگر درپردہ حقائق کچھ اور ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پارٹی کے اندر اہم فیصلے اب بھی نواز شریف کی منظوری سے مشروط ہیں۔ اسحاق ڈار کی ناراضگی بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے، جو اس وقت اپنی وزارت سے خوش نظر نہیں آتے۔ انہوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ اُن کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پارٹی کے اندر اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔
صحافی نعیم اشرف بٹ نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں نواز شریف کی سفارتی سرگرمیاں بھی خاصی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں۔ ایرانی صدر کی لاہور آمد اور ان کا استقبال، سعودی اور یو اے ای کے سفیروں سے نواز شریف کی ملاقاتیں ایک مضبوط سیاسی اشارہ دے رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) پس پردہ بڑی صف بندی میں مصروف ہے۔
ان کا تجزیہ تھا کہ معاملات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں، اور یہ وہ وقت ہے جب سیاسی جماعتیں، ماضی کی طرح، ایک بار پھر “اتحاد برائے مفاد” کے تحت یکجا ہو سکتی ہیں — خاص طور پر جب ان کا مشترکہ حریف پاکستان تحریک انصاف میدان میں متحرک ہے۔
رضا ربانی کی اچانک پریس کانفرنس بھی اسی سیاسی ہلچل کا حصہ سمجھی جا رہی ہے، جو طویل خاموشی کے بعد ایک سخت موقف کے ساتھ منظر عام پر آئے۔ ان کے بیان “امریکی صدر کون ہوتا ہے کہ یہ کہے کہاں سے تیل نکلا؟” نے وفاق اور صوبوں کے درمیان ممکنہ تناؤ کو اجاگر کر دیا ہے۔
اسحاق ڈار کے معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف کی بے چینی کا بھی ذکر کیا۔ ان کے بقول، وزیر اعظم واضح طور پر پریشان ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ کس طرف بڑھا جائے۔ شہباز شریف کا مزاج ہمیشہ مفاہمانہ رہا ہے، مگر اس وقت پارٹی میں اندرونی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک اور دلچسپ نکتہ جو سامنے آیا وہ 27ویں آئینی ترمیم ہے۔ بٹ نے پیش گوئی کی کہ اگر ن لیگ نے اس ترمیم کو آگے بڑھایا تو وہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارے گی۔ اس ترمیم کے ممکنہ نتائج نہ صرف مسلم لیگ (ن) بلکہ پیپلز پارٹی کے لیے بھی منفی ہو سکتے ہیں، جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے لیے راہیں کھلتی دکھائی دے رہی ہیں۔
انہوں نے پانچ اگست کو پی ٹی آئی کے احتجاج کو ایک کامیاب حکمت عملی قرار دیا، جس نے پارٹی کو سیاسی منظرنامے پر دوبارہ ابھرنے میں مدد دی۔ ریحانہ ڈار کی گرفتاری کا واقعہ بھی سیاسی حلقوں میں خاصی گونج پیدا کر چکا ہے، اور اگر یہی واقعہ کسی اور جماعت کے ساتھ پیش آتا تو شاید احتجاج کی شدت مزید بڑھ جاتی۔
پاکستان کی سیاست میں یہ نیا موڑ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ پس پردہ نہ صرف تبدیلی کی لہر موجود ہے بلکہ نئی صف بندیاں، اتحاد، مفادات اور سیاسی چالیں آنے والے مہینوں میں واضح طور پر سامنے آئیں گی۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سیاسی درجہ حرارت شدید حد تک بڑھ چکا ہے، اور ایک نئی سیاسی ہلچل اپنے عروج پر ہے۔
مزید پڑھیں :پنجاب میں موسم گرما کی چھٹیوں میں توسیع،جانئے اب سکول کب کھلیں گے