اہم خبریں

سیاسی لیڈروں پر مقدمات، سزائیں اور نااہلیاں ایک مسلسل چکر بن چکی ہیں، عرفان صدیقی

اسلام آباد (اے بی این نیوز    )سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہپاکستان بھر میں آج جذبے کے ساتھ یومِ استحصال منایا گیا۔ قوم نے آج واضح پیغام دیا کہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
چھ سال قبل کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ناقابل قبول ہے۔ 1948 سے آج تک کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ بھارت کی جانب سے مسلسل کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔
کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت پاکستان کی ریاستی پالیسی ہے۔ چھ برس قبل بھارت کی آئینی کارروائی عوامی رائے کا نعم البدل نہیں۔ وہ پروگرام اے بی این نیوز سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ
آئینی ترامیم سے نہ عوام کے دل فتح کیے جا سکتے ہیں، نہ ان کے خواب چھینے جا سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد آج بھی زندہ ہے۔ ٹرمپ جیسے عالمی رہنما بھی کشمیر کو متنازع مان چکے ہیں۔
قبرستان بھر دینے، نسل کشی کرنے سے آزادی کی جدوجہد کو نہیں دبایا جا سکتا۔
بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق رائے دہی دے۔ عدالت سے سزا کے بعد کسی ممبر اسمبلی کی رکنیت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن صرف عدالتی فیصلے کی توثیق کرتا ہے، نااہلی خودکار عمل ہے۔
سپریم کورٹ نے ان کے خلاف سٹے جاری نہیں کیا، اس لیے نااہلی تاحال برقرار ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف اعلان نہیں، عدالتی فائنلٹی ضروری ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں دیکھنا کبھی پسند نہیں آیا۔
خواہ نواز شریف ہوں یا کوئی اور، لمبی سزائیں اور نااہلیاں دکھ دیتی ہیں۔ سیاسی لیڈروں پر مقدمات، سزائیں اور نااہلیاں ایک مسلسل چکر بن چکی ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر عام رکن تک، سب کو انصاف کے ایک جیسے اصولوں سے پرکھا جائے۔
9مئی 2023 واقعے کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک نیا پریسیڈنٹ سیٹ کر دیا گیا جو باقی لیڈرز کے لیے مشکل بن گیا ہے۔ ایک کمرے میں 15 لوگ ہوں تو ضروری نہیں سب قصوروار ہوں۔ ہمارے ہاں روایت ہے کہ قتل میں 10 بندوں کے نام لکھوا د۔
عدالت وہی سزا دیتی ہے جس پر جرم ثابت ہو۔سلمان اکرم راجہ اب صرف وکیل نہیں، پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ اگر ڈھائی سو مقامات پر حملے ہوئے، تو اتنے جنات یا بھوت تو نہیں تھے۔
میانوالی ایئر بیس پر کھڑے طیارے جلائے گئے، یہ کسی اَن دیکھی طاقت نے نہیں کیا۔
جو تالیاں بجا رہے تھے، خوشیاں منا رہے تھے، وہ لکیر کے دوسری طرف تھے ۔ یہ امریکہ یا برطانیہ میں ہوتا تو ایک ہفتے میں فیصلے ہو چکے ہوتے۔

عدالت سے سزا کے بعد کسی ممبر اسمبلی کی رکنیت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن صرف عدالتی فیصلے کی توثیق کرتا ہے، نااہلی خودکار عمل ہے۔ سپریم کورٹ نے ان کے خلاف سٹے جاری نہیں کیا، اس لیے نااہلی تاحال برقرار ہے۔

مزید پڑھیں :ایف آئی اے کا بحریہ ٹاؤن کے فنانشل ریکارڈ اور ادائیگیوں کی فائلز کی ریکوری کے لیے چھاپہ

متعلقہ خبریں