اہم خبریں

پی ٹی آئی احتجاج، لیڈر شپ نے اپنے ورکرز کو کنفیوژ کر رکھا ہے،لحاظ علی

اسلام آباد ( اے بی این نیوز    ) سمیع ابرا ہیم نے اپنے اے بی این نیوز کے پروگرام ’’  تجزیہ     ‘‘ میں ابتدائیہ دیتے ہو ئے کہا کہ میں اے بی این کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے موقع دیا ہے میں آپ کو یہ بات بتاتا چلوں کہ ہم یہاں کوئی بیانیہ نہیں بنانے کی کوشش کریں گے جو حقائق ہیں وہ آپ کے سامنے رکھیں گے سچائی اور خبر جو کہ آج کل بہت کم ملتی ہے وہ ہم آپ کو دیں گے۔
سب سے پہلے ہم اس پروگرام میں ملکی سیاست پر نظر ڈالتے ہیں کل پانچ اگست ہے پی ٹی ائی کا بہت بڑا احتجاج ہے اندرون اور بیرون ملک بھی اس کی تیاریاں ہو رہی ہیں جہاں جہاں احتجاج ہو رہے ہیں اس کے حوالے سے بھی ہم اپ کو بتائیں گے۔
علی امین گنڈاپور سے ان کی پارٹی لیڈرشپ نے کہا کہ اگر آپ پالیسی کے مطابق نہیں چل سکتے تو اپ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں اور ایسے بندے کو موقع دیں جو پارٹی کو لے کر چل سکے لیکن علی امین اور ان کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں لیڈرشپ کا اعتماد حاصل ہے.

ہم نے صوبہ بھی چلانا ہے پارٹی بھی چلانی ہے تو ایسے میں بظاہر ایک ٹکراؤ سا نظر ارہا ہے اور سب سے پہلے ہمارے ساتھ رپورٹرلحاظ علی ہیں وہ پی ٹی ائی کے بارے میں تمام خبروں سے باخبر رہتے ہیں ان سے ہم بات کریں گے اس کے بعد یو کے کے احتجاج کے بارے میں بھی بات کریں گے اور وہاں نمائندے سے پوچھیں گے کہ کیا صورتحال تھی اور وہاں پر کیا معاملات چل رہے تھے کیا .

یہ احتجاج ماضی کے حالات سے مختلف تھا یہ بھی زیر بحث لایا جائے گا کہ یہ احتجاج آخر کیوں ہے دراصل لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں کرپشن کے خلاف یہ احتجاج ہے بڑا بڑا مافیا جو ہے اس ملک کو ہضم کر گیا ہے۔

ادھر تحریک تحفظ پاکستان نے جو چیف جسٹس کو خط لکھا ہے اس پر بھی بات کریں گے حسنات ہمارے ساتھ ہوں گے ہم ان سے بھی بات کریں گے وہ بتائیں گے کہ اس خط کا کیا اثر ہے اور آخر میں ہم ایران کے صدر جنہوں نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے اس کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے پاکستان اور ایران کے تعلقات بہترین انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں اسرائیل نے جب ایران پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایران کا ساتھ دیا اور ایرانی پارلیمنٹ تشکر پاکستان تشکر پاکستان کےنعروں سے گونجتی رہی

علی امین گنڈاپور کے حوالے سے ہم آگے چلتے ہیں اور ہمارے ساتھ جو ہیں لحاظ علی سینیئر تجزیہ کار ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ جو پی ٹی آئی کا احتجاج ہے یہ سب کیا ہو رہا ہےلحاظ علی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کے پی میں میں اس وقت کچھ ایسا نظر نہیں آرہا جو باہر لیڈرشپ ہے اس نے اپنے ورکروں کو بھی کنفیوژ کر رکھا ہےکے پی میں میں پارٹی قیادت جنید اکبر کے پاس ہے .

وہ پارٹی کے صوبائی صدر ہیں جبکہ حکومت کے حالات علی امین گنڈاپور نے سنبھالے ہو ئے ہیں۔ علی امین گنڈاپور اور جنید اکبر کے مابین اس وقت اختلافات پیدا ہو چکے ہیں جہاں تک عمران خان کی رہائی کی بات ہے تو 20 24 میں پاکستان تحریک انصاف نے جو پانچ جلوس پہلے نکالے پھر چھٹا جلوس صوابی کے مقام پر نکالا لیکن نومبر کے بعد یہ پہلا موقع ہے

کہ پاکستان تحریک انصاف آٹھ یا نو ماہ بعد اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے یہاں پر سمیع ابراہیم نے ان سے پوچھا کہ یہ بتائیے احتجاج کی تیاری کیسی ہے جس پر تجزیہ کار لحاظ علی نے کہا کہ مین جلوس پشاور میں نکالا جائے گا پھر وہ جی ٹی روڈ پر آئے گا یہ جلوس ڈھائی تین گھنٹے تک نکلے گا توقع ہے
آٹھ نو بجے کے قریب جلوس ختم ہو جائے گا ۔
یہاں باقاعدہ کسی جلسے یا جلوس کی تیاری دکھائی نہیں دے رہی ہے راہنماؤں کو ایک ہدف دیا گیا ہے جو وہ پورا کریں گے علی امین گنڈاپور کی پوزیشن کے حوالے سے کیے گئے

سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ علی امین نے اسمبلی میں اپنی پوزیشن بنا لی ہے اور اسمبلی کے اراکین علی امین کی طرف ہیں کیونکہ فنڈ زانہوں نے جاری کرنے ہیں جبکہ زیادہ ارکان جنید اکبر کے ساتھ نہیں ہیں جہاں تک عمران خان کا معاملہ ہے تو بشر یٰ بی بی کی تائید علی امین کو حاصل ہے اور جو مرکزی چیئرمین ہیں وہ بھی علی امین کے ساتھ ہے ۔

محمود اچکزئی کی پارٹی کے پی میں موجود نہیں ہے اور وہاں پر عوامی پارٹی کی وجود نظر نہیں آتا جو کچھ بھی کرنا ہے وہ تحریک انصاف نے ہی کرنا ہے ۔جو ماضی میں اسلام اباد کی جانب تیاریاں دیکھی گئی تھیں وہ بالکل بھی نظر نہیں آرہی ۔ک

ے پی میں ہونے والے آپریشن کے حوالے سے اس وقت پی ٹی آئی کے ورکر بھی دھڑلے سے یوٹرن لے رہے ہیں علی امین گنڈا پور بھی یوٹرن لے رہے ہیں علی امین کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ باقاعدہ قائم و دائم ہے ہاں البتہ آپریشن مخالف جو ٹولہ بنا ہوا ہے وہ موجود ہے جنید اکبر کے حوالے سے لحاظ علی نے کہا کہ جنید اکبر علی امین کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں

لندن سے اے بی این کے نمائندے ساجد اعزاز نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لندن میں پی ٹی آئی کا بہت بڑا مظاہرہ تھا اور ایک خاص تعداد میں لوگ باہر نکلے یہاں پر صرف لندن سے نہیں مختلف شہروں سے لوگ اس مظاہرے میں شریک ہوئے ہیں اگر مظاہرے کی بات کی جائے تو لندن پی ٹی ائی کی ٹیم جو ہے

وہ یہ جلسہ مینج کر رہی تھی البتہ سٹیج کے معاملات یا صحیح طرح منظم نہیں رکھ سکے جس کی وجہ سے جو رہنما ہیں وہ کچھ ناراض بھی دکھائی دیے ہیں نمائندہ خصوصی لندن ساجد اعزاز نے مزید کہا کہ اس مرتبہ قیادت نے کوشش کی کہ اندرونی اختلافات کو ختم کیا جائے اور اس میں وہ کافی کامیاب ہوئے لیکن اگر لیڈران کو دیکھا جائے تو وہ ابھی بھی تقسیم ہے صاحبزادہ جہانگیر پہلے ائے انہوں نے تقریر کی اور وہ چلے گئے

جب وہ چلے گئے تو پھر اس کے بعد زلفی بخاری آئے تو پھر لوگ خاصے پرجوش ہیں اور اپنے لیڈر کے حق میں نعرے لگائے اوورسیز جتنے بھی پاکستانی ہیں وہ اپنے لیڈر عمران خان کے ساتھ ہیں عمران خان کے بیٹوں کے پاکستان انے کے سوال کے جواب میں ساجد اعجاز نے کہا کہ جلسے میں جلسے میں ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا جسے واضح ہو کہ عمران خان کے بیٹے پاکستان جا رہے ہیں

یا نہیں البتہ کچھ دن پہلے ہم نے ہائی کمیشن سے رابطہ کیا اور ان سے اس بارے میں وضاحت چاہیے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی انہوں نے مزید کہا کہ کہ گزشتہ تین سال پہلے جو پی ٹی ائی کے مظاہرین تھے وہ بہت پرجوش تھے جب بھی کوئی نواز شریف فیملی کا کوئی اتا تو یہاں پر مظاہرے کیے جاتے تھے

لیکن اس مرتبہ نواز شریف کا دو ہفتے کا دورہ تھا ہم ہر روز وہاں پر کوریج کے لیے جاتے تھے لیکن ان دو ہفتوں میں ایک بندہ بھی پی ٹی آئی کا مظاہرے کے لیے وہاں نہیں آیا اب وہ جوش جو ہے وہ دکھائی نہیں دے رہا تحریک انصاف کے کارکنان میں جوش ٹھنڈا پڑتا ہوا دکھائی دے رہا ہے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید کہا کہ یہ جو جوش ٹھنڈا پڑ رہا ہے

اس کو ہم اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی برطانیہ کی جو قیادت ہے وہ اس کی نالائقی بھی کہہ سکتے ہیں ان کی قیادت میں درمیان اختلافات ہیں اور کئی دھڑے بنے ہوئے ہیں جو قیادت ہے اس نے ان کو سٹیج پر نہیں آنے دیا گیا اورتفر قہ کی وجہ سے یہاں پر تقسیم واضح طور پرہے لیکن پی ٹی آئی جو ہے عوام کو صحیح طرح متحد نہیں رکھ پا رہی ہے۔لندن میں اس وقت جو پی ٹی آئی کے ورکر ہیں وہ صرف عمران خان کو ہی لیڈر مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہمارا لیڈر واحد عمران خان

حسنات ملک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں ائینی ترمیم کے بعد صوفیوں کورٹ میں حالات بالکل مختلف ہیں اکتوبر میں 26ویں ترمیم پاس ہوئی تھی اس کے بعد ابھی تک سپریم کورٹ سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں ایا جس سے موجودہ نظام کو کوئی مسئلہ درپیش ہو انہوں نے مزید کہا کہ تحریک تحفظ ائین پاکستان کی جانب سے جو سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا ہے اس سے یہ مسئلہ مزید اجاگر ہو گیا ہے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ممکن ہے کہ اگر چیف جسٹس اف پاکستان اس خط کے حوالے سے مسئلہ ریفر کریں نو ستمبر کے بعد جب یہ بینچ ائے گا تو پھر ممکن ہے کہ یہ خط جو ہے وہ ٹیک اپ ہو جائے انہوں نے مزید کہا کہ عموما اس قسم کے خطوط جو ہوتے ہیں جن لوگوں نے یہ فائدے اٹھائے ہیں تو اگر کسی کو اس معاملے میں ٹائٹ کیا جائے تو پھر یہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے پاکستان میں کوئی چیز بھی ممکن ہے

مزید پڑھیں :کل 5 اگست ملک گیر احتجاج ،ممکنہ گرفتاری،پی ٹی آئی کے اہم راہنما نے عدالت سے رجوع کر لیا

متعلقہ خبریں