اسلام آباد(اے بی این نیوز )رہنماپی ٹی آئی بیرسٹرعمیرنیازی نے اےبی این کےپروگرام’’ڈیبیٹ@8میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ تحریک کیلئےمختلف پہلوؤں پرکام ہورہاہے۔ ہمیں عوام کےمسائل کےحل کی کوشش کرنی چاہیے۔
26نومبرکی نسبت احتجاج زیادہ بہترہوگا۔ عوام مہنگائی سے پریشان، کوئی سننے والا نہیں۔ سیاسی کارکن کیسز اور گرفتاریوں کا شکارہیں۔ بانی پی ٹی آئی کیخلاف مقدمات کی بھرمارہے۔
نظام پر دباؤ، ادارے کشمکش میں مبتلا ہیں۔
سیاسی صورتحال خطرناک موڑ پر پہنچ گئی۔ عوامی مسائل نظرانداز، سیاست میں رسہ کشی جاری ہے۔ جمہوری عمل سست، قیادت کا خلا بڑھ گیا۔ سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
لاوا پک رہا ہے، باہر آنے کی تیاری میں ہے۔
عوام کا درد کسی کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔ کسانوں کی جیب پر 2200 ارب کا ڈاکہ ڈالاگیا۔ احتجاج اب صرف سیاسی نہیں، عوامی بھی ہوگا۔ عوام خود اُبھر رہے ہیں، کوئی لیڈر نہیں۔
حکومت اور عوام کے درمیان خلیج بڑھ گئی۔
رہنما پیپلزپارٹی نیئربخاری نے اےبی این کےپروگرام’’ڈیبیٹ@8میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 26ویں ترمیم پر کوئی تجویز پیش نہیں کی۔ اتحادی جماعت نے ترمیم دی تو قیادت سے مشاورت ہوگی۔
ہر ترمیم کو پارٹی سیکٹر کمیٹی میں ایگزامن کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی ترمیم کا باقاعدہ جائزہ لے گی۔ آئینی عمل مکمل مشاورت اور فورمز سے گزرے گا۔ ہماری قیادت آئینی ترمیم پر کھلی بات چیت کیلئےتیار ہے۔
جب تجویز آئے گی، تب مؤقف طے کیا جائے گا۔ ترمیم پر ابھی کوئی باضابطہ بات شیئر نہیں کی گئی۔ آئینی ترامیم فورم پر ہی زیرِ بحث لائی جائیں گی۔ بغیر تجویز کے پارٹی مؤقف دینا قبل از وقت ہے۔
سیاستدان ہونا سزا سے استثنا نہیں دیتا۔ جرم ثابت ہو تو سیاستدان بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ سیاست عوام کی خدمت ہے، جرم کا لائسنس نہیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
سیاستدان کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی۔
احتساب سب کا ہو کوئی مقدس گائے نہیں۔ سیاسی لیڈر ہوں یا عام فرد، جرم جرم ہوتا ہے۔ گرفت صرف عام آدمی پر نہیں، بالا طبقے پر بھی ہونی چاہیے۔ استغاثہ اگر جرم ثابت کرے تو سزا ضرور ملنی چاہیے۔
سیاسی انتقام نہیں، مگر ریاست دشمنی ناقابل معافی ہے۔ سیاسی اختلاف جائز، ریاست پر حملہ جرم ہے۔ 9مئی حکومت نہیں، ریاست پر حملے کا دن تھا۔ ریاستی اداروں کے خلاف جرم پر سزا لازمی ہے۔
قانون سب کیلئے برابر وزیراعظم بھی مستثنیٰ نہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو بھی سزا ہوئی، قانون حرکت میں آیا۔ مقدمات سیاسی نہیں، ریاستی خلاف ورزی پر ہیں۔ کنوکشن کے بعد رعایت نہیں، قانون اپنا راستہ لے گا۔
سیاست اور ریاست کا فرق واضح ہونا چاہیے۔ 9مئی کو حد عبور کی گئی ردعمل ریاستی تھا، سیاسی نہیں۔ رہنما ن لیگ امیر مقام نے اےبی این کےپروگرام’’ڈیبیٹ@8میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ
ٹارگٹ آپریشن میں عوام اور حکومت کو سیکیورٹی فورسز کا ساتھ دینا چاہیے۔
اگر ایف سی کو آپریشن سے روکا گیا تو سیکیورٹی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایف سی کو آئینی دائرہ کار میں رہ کر کارروائی کی اجازت دی جائے۔ آپریشن کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے، قومی سلامتی مقدم ہے۔
ذمہ دار عہدے پر بیٹھ کر غیر سنجیدہ بیانات افسوسناک ہیں۔ صوبے کے عوام کی تضحیک برداشت نہیں کی جا سکتی۔ حکومت کا حصہ ہو کر حالات سے نظریں چرانا بچگانہ طرزِ عمل ہے۔
اگر سب کچھ کنٹرول میں ہے تو لوگ شام کے بعد گھروں سے کیوں نہیں نکلتے؟
پولیس اور لوکل ایڈمنسٹریشن کو مضبوط بنانا علی امین کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پولیس کو وسائل، مراعات اور نفری دی جائے تاکہ وہ خود حالات پر قابو پائیں۔ ہمیں زمینی حقائق سے انکار نہیں، میں نے دہشت گردی کا سامنا کیا، لاشیں اٹھائیں۔
سیکیورٹی جیسے اہم مسئلے کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔ وفاقی وفد افغانستان سے بات کرے، لیکن خیبرپختونخوا کی نمائندگی بھی ہو۔ محسن نقوی اور اسحاق ڈار وفد میں شامل ہوتے ہیں، کے پی کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا۔ خیبرپختونخوا پر بات ہو، لیکن نمائندگی نہ ہو، یہ عوام دشمنی ہے۔
خیبرپختونخوا پر بات ہو، لیکن نمائندگی نہ ہو، یہ عوام دشمنی ہے۔ ہر صوبے کو خارجہ پالیسی پر خود بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بارڈر امور پر قومی سطح پر فیصلے ضروری ہیں، علیحدہ رویے خطرناک ثابت ہوں گے۔ وفاقی وفود میں خیبرپختونخوا کی نمائندگی نہ ہونا افسوسناک ہے۔
افغانستان سے مذاکرات میں کے پی کی شمولیت لازم ہے۔ پانچ اگست کا احتجاج حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ تحریک انصاف کے احتجاج سے کوئی اثر نہیں پڑے گا، عوام باشعور ہو چکے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے عوام اب سیاسی جذبات میں نہیں آئیں گے۔ لوگ احتجاج سے دور ہو رہے ہیں، تحریک انصاف کا بیانیہ بے اثر ہو چکا۔ 90 دن کا نعرہ ناکامی چھپانے کی کوشش ہے، علی امین خود تسلیم کر چکے۔
مزید پڑھیں :راول ڈیم پانی کی سطح بلند،ہنگامی صورتحال،سپل ویز کل صبح اوپن