اسلام آباد (اے بی این نیوز) سابق وفاقی وزیردانیال عزیزنے اےبی این کےپروگرام’’سوال سےآگے‘‘میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا ہے کہ سیاسی استحکام کا انتظار ہے، مگر معیشت دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔
حکومت6.8فیصدترقی کادعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقی شرح2فیصدسےزیادہ نہیں۔ پرانے اعداد و شمار پر پالیسی پر فنانس منسٹر نے خود برہمی کا اظہار کیا۔ بے روزگاری 20 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
سری لنکا بحران سے نکلا، ہم اب بھی استحکام کی تلاش میں ہیں۔
بنگلہ دیش نے انقلاب دیکھا، پاکستان ابھی تک کنفیوژن میں ہے۔ نیپال میں بدامنی کے باوجود معیشت بہتر سمت میں گامزن ہے۔ جنوبی ایشیا آگے بڑھاہے، پاکستان پیچھے رہ گیا۔
10 سال پرانے ڈیٹا سے نئی پالیسیاں بناجارہی ہیں۔
ستمبر میں شرح نمو کی ری وائزنگ کا امکان ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو زمینی حقائق کا علم ہی نہیں۔ فنانس منسٹر کا اداروں پر برہمی، ’غلط اعداد و شمار پر پالیسیاں کیوں؟ اکنامک پالیسیوں کا ناکام ماڈل، ملک کو طویل المدتی خطرات لاحق ہیں۔
حکومت کا فوکس سیاسی جوڑ توڑ پر، معاشی اصلاحات پس منظر میں چلی گئیں۔ معاشی سچ چھپانے کا رجحان، عوام کو اصل صورتحال سے لاعلم رکھا گیا۔
سابق گورنرسندھ محمدزبیرنے کہا کہ پاکستان میں 2021 کے بعد بے روزگاری کا ڈیٹا جاری نہیں کیا گیا۔ 1963سے جاری لیبر فورس رپورٹ، اب 4 سال سے رکی ہوئی ہے۔
معاشی شفافیت پر پاکستان کے اقدامات سوالیہ نشان ہیں۔ حکومت کا بے روزگاری جیسے بنیادی ڈیٹا کو چھپانا، پالیسی سازی کیلئے خطرہ ہے۔ اکنامک ڈیٹا کو “ان پلگ” کرنا ترقی نہیں، اندھی پالیسی سازی کی علامت ہے۔
گورننس یا صرف منافع خوری؟ امپورٹ، ڈالر اور قیمتیں عوام پر بم بن کر گرنے لگیں۔ فیصلے عام آدمی کے مفاد میں نہیں، صرف اشرافیہ کے منافع کیلئے ہو رہے ہیں۔ ڈالر ریٹ 140 سے 200 تک گیا، فائدہ کسے ہوا؟ نقصان صرف عوام کاہوا۔
گیس و فیول پر کھیلا گیا کھیل، ریاست نے خود قیمتیں بڑھا کر فائدہ اٹھایا۔ اگر حکمرانی کا مطلب صرف قیمتیں بڑھانا ہے، تو کوئی بھی حکومت کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور، عوام صرف قربانی دیتے ہیں، فائدہ سسٹم اٹھاتا ہے۔
ریاستی پالیسی یا مالیاتی کھیل؟ معیشت عوام سے زیادہ اشرافیہ کو فائدہ دے رہی ہے۔ گورننس عوام کے لیے نہیں، اب صرف قیمتوں اور کمائی کا کھیل بن چکی ہے۔ گیس، ڈالر اور امپورٹ پر منافع کمانا نئی حکومتی حکمتِ عملی بن گیا ہے۔
ڈالر 84 سے 200 تک، عوام کی جیبیں خالی، خزانے بھر گئے۔ پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور، ماڈل ایک ہی ہے امپورٹ کرو، نرخ بڑھاؤ، منافع کماؤ۔ بنیادی معاشی فیصلے عوام کی بھلائی کے لیے نہیں، ریونیو کیلئے ہو رہے ہیں۔
جب گورننس کا مطلب صرف ‘ریٹس کا کنٹرول’ رہ جائے تو فیصلے کون نہیں کر سکتا۔ کیا ریاستی معیشت اب عوامی خدمت نہیں، بزنس ماڈل پر چل رہی ہے۔ ڈالر، گیس اور فیول پر حکومتی پالیسی یا مالیاتی جوڑ توڑ؟ فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں :گلگت بلتستان میں قیامت صغریٰ،ہر طرف تباہی ہی تباہی، متعدد علاقے آفت زدہ قرار