اسلام آباد (اےبی این نیوز )سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اےبی این کےپروگرام’’سوال سےآگے‘‘میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ سزادینےکیلئےآئین وقانون کونہیں دیکھاجاتا۔
2000میں عدالت میں تھا جب نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
نواز شریف کو اس سے پہلے بھی کئی سزائیں دی جا چکی تھیں۔ پاکستان میں قانون اور آئین کی عزت نہیں کی جاتی۔ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ سزا دینا صرف وقتی عمل بن چکا ہے، حقائق کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
جواقتدار میں ہوتے ہیں وہ اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئےطاقت استعمال کرتےہیں۔ سزا دینے کا مقصد اکثر صرف خوف کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس سے وقتی طور پر معاملات ٹھیک ہو جاتے ہیں، آخرکار نقصان ہوتا ہے۔
جو آتا ہے، وہ اسی طریقے سے ملک کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سسٹم کے اصل مسائل کو سمجھنا یا حل کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ قانون کی عزت اور جمہوریت برقرار نہیں رہتی۔ سیاست میں سچائی اور اصول کم ہی نظر آتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سنجیدگی سے سوچیں اور بہتر فیصلے کریں۔ یہ تحریک ایک اہم حصہ ہے، اور آپ بھی جانتے ہیں کہ کاغذات اہم ہیں۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کرپشن کتنی بڑھ گئی ہے۔
اب اسلام آباد کو دیکھیں، وہاں سڑکیں دبئی کی طرح نہیں بنتیں۔
بارش کی وجہ سے 4 مہینے تک سڑکیں خراب رہتی ہیں اور چلتی نہیں۔ کرپشن اتنی حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کا خاتمہ ناممکن لگتا ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اب انصاف بھی پیسے لے کر ملتا ہے۔
پولیس کا کام بھی اب پیسے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
کرپشن اتنی حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کا خاتمہ مشکل ہو گیا ہے۔ میرا ہمیشہ سے ماننا ہے کہ اب انصاف بھی پیسے لے کر ملتا ہے۔
سینیٹرعلی ظفر نے اےبی این کےپروگرام’’سوال سےآگے‘‘میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی تحریک آئین کے تحت پرامن احتجاج ہے۔ عدالت میں سزا کیلئےالزامات کی بجائے مکمل ثبوت درکار ہوتے ہیں۔
سرگودھا اور لاہور کے کیسز میں کوئی قابل قبول شہادت پیش نہیں ہوئی۔ کیس کی بنیاد پر موجود شہادتیں ناقابلِ اعتبار ہیں۔ شہادتیں مبہم اور متضاد ہیں، جیسے لوگ ٹیبل یا کرسی کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔
ایسی شہادت پر کسی قسم کا انحصار نہیں کیا جا سکتا، یہ انصاف کے منافی ہے۔
عدالت نے مجبوراً فیصلہ دیا، لیکن ریکارڈ اس سے مختلف ہے۔ اپیل میں یہی ریکارڈ ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ میری رائے میں ہائی کورٹ اس سزا کو ختم کر دے گا۔ اپیل کا عمل مشکل ہے اور اکثر اپیلیں سنی بھی نہیں جاتیں۔
حکومت اور اپوزیشن کی بیانیہ میں فرق ہے، مگر یہ صرف وقتی خوشی ہے۔ وقت بدلتا ہے اور حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ مہینوں بعد سچائی سامنے آئے گی۔ عدالت کے سامنے یہی ریکارڈ ہوگا، اس لیے پریشانی کی ضرورت نہیں۔
انشااللہ سزائیں ختم ہو جائیں ۔ شاہ محمود قریشی کے خلاف کیس مختلف تھا۔ وہ لاہور میں موجود ہی نہیں تھے، اس لیے سزا ممکن نہیں تھی۔ عدالت نے ان کیخلاف کوئی سزا نہیں دی کیونکہ حقیقت واضح تھی۔
باقی افراد کو سزا دی گئی کیونکہ وہ لاہور میں موجود تھے۔ حکومت اور اپوزیشن کی بیانیہ مختلف ہے، اور وہ عارضی خوشی مناتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی بیانیہ میں عارضی خوشی ہے۔ وقت بدلتا ہے اور حالات بھی بدلیں گے۔
مہینوں بعد سچائی سامنے آئے گی۔ عدالت کے سامنے یہی ریکارڈ ہوگا، اس لیے پریشانی نہیں۔ 70فیصد افراد کی ضمانت ہو چکی ہے، باقی ضمانتیں بھی جلد منظور ہو جائیں گی۔ وہ جلد باہر آ جائیں گے اور قیادت سنبھالنے کی تیاری کریں گے۔
وائس سینئر وائس چیئرمین گوہر اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھائیں گے۔ ان کا مقصد بانی پی ٹی آئی کو سیاسی میدان سے باہر نکالنا ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
کچھ وقت پہلے ایسا قانون تھا جس میں اگر آپ انتخاب نہ لیتے تو آپ نااہل ہو جاتے۔
رہنما (ن)لیگ طارق فضل چودھری نے اےبی این کےپروگرام’’سوال سےآگے‘‘میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی تحریک انصاف کی قیادت نے بھرپور مذمت کی۔
یہ واقعات انتہائی قابل مذمت ہیں۔ ملوث افراد کیخلاف ثبوت موجود ہیں، کچھ گرفتار اور کچھ بری ہو چکے۔ فیصلے آنے کے دوران ملک میں سیاسی صورتحال متحرک رہتی ہے۔
کچھ فیصلے منطقی نہیں لگتے اور ناانصافی کے شواہد ہیں۔
ایسے فیصلے “جسٹس ابیوز” کہلاتے ہیں۔ صورتحال واضح ہونے تک مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ 5 اگست کے اجتماع کا فیصلہ پنجاب انتظامیہ کرے گی۔
انتظامیہ کو یقین دلانا ہوگا کہ یہ سیاسی اجتماع خالصتاً پرامن ہوگا۔
حکومت پہلے سے ہی اجتماع کو سیاسی اور انتقامی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ خیالات اور ارادوں کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ غلط فہمی نہ ہو۔ اگر حکومت پر حملہ ہوا تو حکومت کو ردعمل دینا ہوگا، مذمت نہیں۔
سیاسی احتجاج کا حق جمہوریت کا حصہ ہے اور اسے سمجھنا چاہیے۔ اگر غیر مسلح سیاسی اجتماع ہوگا تو روک تھام کرنا حکومت کا کام ہے۔ پنجاب حکومت کو یقین دلانا ہوگا کہ اجتماع پرامن ہوگا تاکہ اجازت ملے۔
مینار پاکستان میں اجتماع کے لیے تیاریاں پہلے سے ہونی چاہیے۔ میڈیا میں واضح بیان دینا ضروری ہے تاکہ حکومت سنجیدگی کا اندازہ کرے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ اجتماع سیاسی اظہار رائے کا حق ہے۔ اگر غیر مسلح سیاسی اجتماع ہوگا تو روک تھام کرنا حکومت کا کام ہے۔
پنجاب حکومت کو یقین دلانا ہوگا کہ اجتماع پرامن ہوگا تاکہ اجازت مل سکے۔ مینار پاکستان میں اجتماع کی تیاریاں پہلے سے مکمل ہونی چاہئیں۔ میڈیا میں واضح اور سنجیدہ بیان دینا ضروری ہے تاکہ حکومت کو یقین ہو۔
حکومت کے موقف پر شک نہ ہو کہ اجتماع غیر سنجیدہ ہے۔ سیاسی اجتماع اظہار رائے کا بنیادی حق ہے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ بعض افراد امریکہ میں بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
یہ چیز پاکستان کی سیاست کو متاثر نہیں کرے گا۔
امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ بانی پی ٹی آئی کےبیٹے پاکستان نہیں آئیں گے۔
مزید پڑھیں :ٹریفک کنٹرول کا نیا دور، اسمارٹ سگنلز کی تنصیب،پیدل چلنے والے کے ہاتھ میں کنٹرول آگیا