اسلام آباد(ویب ڈیسک)سینیٹ آف پاکستان نے عورت کو برہنہ کرنے اور ہائی جیکر کو پناہ دینے پر سزائے موت ختم کرنے کیلئے فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل منظور کرلیا جبکہ حوالگی ملزمان اور پاکستانی شہریت کے حوالے سے ترمیمی بل بھی منظور کرلیے، ایوان نے قائم مقام وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی کے خلاف تحریک استحقاق کا معاملہ بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو سپرد کردیا۔
سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سیدال خان ناصر کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں بارشوں اور سیلاب سے جاں بحق افراد کے لیے دعائے مغفرت کی گئی، وقفہ سوالات کے دوران این ایچ اے میں ایک افسر کی 16 سال سے ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کا انکشاف ہوا۔
سینیٹر شہادت اعوان نے اس تقرری کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جبکہ وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے معاملے سے لاعلمی ظاہر کی اور انکوائری کا اعلان کردیا۔
لواری ٹنل منصوبے پر بات کرتے ہوئے وزیر مواصلات نے بتایا کہ منصوبے کے پہلا اور دوسرا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے، تاہم نارتھ ایکسس پر 2 ٹھیکیداروں کی عدالتی لڑائی کے باعث حکمِ امتناع رہا، جو اب ختم ہو چکا ہے اور جون سے کام دوبارہ جاری ہے۔
این ایچ اے میں کرپشن کے الزامات پر بھی سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ افسران کمیٹیوں میں آکر جھوٹ بولتے ہیں اور اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں، وفاقی وزیر عبد العلیم خان نے جواب دیا کہ ان کے دور میں ادارے کا ریونیو 50 ارب روپے تک پہنچا ہے اور کرپشن پر کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سرکاری بھرتیوں کے طریقہ کار، تعلیمی زوال اور سزائے موت پر قانون سازی سے متعلق سوالات کے جواب دیے، ان کا کہنا تھا کہ آج بھرتیاں سخت قواعد کے تحت ہوتی ہیں جبکہ تعلیم کے بگڑتے معیار اور انٹرنل ایگزامینیشن سسٹم پر فوری نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، ایوان نے قائم مقام وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی کے خلاف تحریک استحقاق کا معاملہ بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔
’پانی کے جھگڑوں پر عورت کے کپڑے اتارنے کا مقدمہ بنالیتے ہیں‘
وزیر مملکت داخلہ طلال چودری نے فوجداری قوانین میں ترمیم کا بل منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا، بل میں خاتون پر مجرمانہ حملہ کرنے یا سر عام اس کو برہنہ کرنے پر سزائے موت ختم کرنے کی تجویز شامل ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ خاتون پر مجرمانہ حملہ کرنے یا اسے سرعام برہنہ کرنے پر ملزم کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا، ابتدائی طور پر وارنٹ جاری کیا جائے گا، جرم ناقابل ضمانت اور ناقابل مصالحت ہوگا جبکہ خاتون پر مجرمانہ حملہ کرنے یا اسے سرعام برہنہ کرنے پر مجرم کو عمر قید، جائیداد کی ضبطی اور جرمانہ ہو گا۔
بل میں ہائی جیکر کو پناہ دینے والے کے لیے سزائے موت ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ہائی جیکر کو پناہ دینے والے کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جاسکے گا، ابتدائی طور پر وارنٹ جاری کیا جائے گا، جرم ناقابل ضمانت اور نا قابل مصالحت ہو گا اور مجرم کو عمر قید اور جرمانہ بھگتنا ہو گا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ عورت کے کپڑے اتارنے پر سزائے موت تھی، اس سزائے موت کو برقرار رہنا چاہیے، ثمینہ ممتاز نے کہا کہ قانون کو ہم مزید نرم کر رہے ہیں، ہم عورت کو کمزور بنا رہے، عورت کے کپڑے اتارنے میں نرمی لائی جا رہی، آپ کو تو اور سختی کرنی چاہیے، یہ اسلامی ریاست ہے، بین الاقوامی لوگوں کو خوش کرنے ہم اپنی سزا کم کر رہے ہیں۔
اعظم نذیر تاررڑ نے کہا کہ کیسے سوچ لیا کہ سزا کی سنگینی جرم کو روکتی ہے، ہمارے پاس 100 جرائم میں سزائے موت ہے اور جرائم کی شرح بلند ہے، یورپ میں سزائے موت نہیں اور وہاں جرائم کم ہو رہے ہیں، وہاں جیلیں خالی ہیں جنہیں میوزیم میں بدل رہے، سزا موت دینے سے جرائم کم نہیں ہوں گے، پانی کے جھگڑوں پر عورت کے کپڑے اتارنے کا مقدمہ بنالیتے ہیں تاکہ اگلے کو سزا موت ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ضیا کے دور میں وڈیروں نے خاتون کے کپڑے پھاڑے تو اس کیس میں سزائے موت دی گئی، اس سے قبل اس جرم پر 7 سال قید ہوتی تھی، جب یہ قانون بنا تو اس کیس کا اندراج بڑھ گیا، عمر قید بہت بڑی سزا ہے، شریعت میں شامل 4 جرائم کے علاوہ کسی جرم پر سزائے موت نہیں ہونی چاہیے۔
حوالگی ملزمان ترمیمی بل اور پاکستان شہریت ترمیمی بل بھی منظور
دریں اثنا، سینیٹ نے حوالگی ملزمان ترمیمی بل بھی منظور کرلیا، علی ظفر نے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ملک درخواست کرے تو ملزمان کو وہاں بھیج دیا جاتا ہے، دوسرے ممالک کے لوگ اپنے شہریوں کو بہت زیادہ تحفظ دیتے ہیں، ہم پاکستانی شہری کو دینے میں آسانی کیوں پیدا کر رہے ہیں، ہمارے مقصد اپنے لوگوں کے تحفظ کا ہونا چاہیے ، بھیجنے کا کابینہ کی سطح پر فیصلہ ہونا چاہیے، قانون کے مطابق تو جوائنٹ سیکریٹری کے فیصلے پر لوگوں کو باہر بھیج دیں گے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تاررڑ نے کہا کہ ہمارے حوالگی کا قانون قانون 1972 سے ہے، یہ معاہدہ دو طرفہ ہوتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان حوالگی کا معاہدہ ہونا لازم ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ اپ حوالے کر دیں اور وہ سر کاٹ دیں یا ہاتھ، نئی ترمیم کے تحت کسی ملک کی درخواست پر پراسس شروع کیا جاتا ہے، محکمے کا سیکریٹری کیس شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے، پھر کابینہ کیس کو اوپن کرنے کی اجازت دیتی ہے، مجسٹریٹ لیول کی انکوائری ہوتی ہے، پھر وفاقی حکومت فیصلہ کرتی ہے کہ ہم نے شخص حوالے کرنا ہے کہ نہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس ترمیم سے قانون میں چھوٹی چھوٹی آسانیاں کی ہیں، ہم بھی لوگ بھیجتے ہیں اور باہر سے بھی لوگ آتے ہیں۔
دریں اثنا، سینیٹ نے پاکستان شہریت ترمیمی بل بھی منظور کرلیا، بل کے مطابق پاکستان کی شہریت کو چھوڑنے والا ڈیکلریشن جمع کر کے دوبارہ پاکستان کی شہریت بحال کر سکتا ہے، متعلقہ شخص کا چھوٹا بچہ جس کی پاکستانی شہریت ختم ہو گئی تھی وہ بھی پاکستانی شہری بن جائے گا۔
علی ظفر نے کہا کہ قانون کی زبان ہے کہ کوئی پاکستانی شہریت واپس لے سکتا ہے، اعظم نذیر تاررڑ نے کہا کہ اگر کوئی پاکستانی شہریت چھوڑتا ہے اسے دوبارہ شہریت لینے کا اختیار ہونا چاہیے یا نہیں، اس کی قانون اجازت دیتا ہے، کئی بار اپ باہر ملک جاتے ہیں اور وطن کی محبت واپس لے آتی ہے ، دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں، قانون میں ترمیم کے تحت جو شہریت چھوڑے وہ ڈکلریشن دیکر شہریت واپس لے سکتا ہے۔
ایوان میں مختلف قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس بھی پیش کی گئیں، ریپ اور دہشتگردی کے بڑھتے جرائم پر سزاؤں میں نرمی یا سختی کے حوالے سے بھی متضاد آرا سامنے آئیں۔
اجلاس میں سینیٹر علی ظفر نے حالیہ بارشوں کو حکومتی ناکامی قرار دیا اور کہا کہ بروقت اقدامات نہیں کیے گئے، ایوان میں مطالبہ کیا گیا کہ بارشوں اور تباہی سے متعلق جامع رپورٹ پیش کی جائے اور ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ریاستی ذمہ داری کا تعین ہو سکے، ایوان کی کاروائی سوموار کی شام پانچ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔