اسلام آباد (اے بی این نیوز) مشیروزیراعظم راناثنااللہ نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی پی ٹی آئی کے اندر سے آنی چاہیے۔ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے چھ ٹکٹ جاری کیے، اپوزیشن کو پانچ سیٹیں دی جائیں گی۔
آر یا پار کی تحریک اصل میں ملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش ہے۔ جو لوگ ریاستی نظام کو چیلنج کریں گے، ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی کے جیل سے دیے گئے پیغامات انارکی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ملک میں قانون کی بالادستی ہوگی، کوئی بلیک میلنگ برداشت نہیں ہوگی۔ ماضی میں پی ٹی آئی کے تمام لانگ مارچ پرامن ہونے کے دعووں کے باوجود پرتشدد نکلے۔ 5 اگست کو پی ٹی آئی کسی کلائمکس کی تیاری نہیں کر رہی۔
ہمارے پاس ان کی میٹنگز کی انفارمیشن ہے، کوئی بڑی سرگرمی پلان نہیں۔ پی ٹی آئی کی اندرونی لڑائیاں ہمارے لیے باعثِ سکون ہیں۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ
پی ٹی آئی کی تقسیم میں حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ گر پرامن احتجاج ہوا تو روکا نہیں جائے گا، پرتشدد ہوا تو سخت کارروائی ہوگی۔ وزیراعظم اور صدر مملکت کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ملاقات میں سیاسی، انتظامی اور سیکیورٹی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
وزیراعظم نے صدر مملکت کو دہشتگردی کی صورتحال پر اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم نے آئینی ذمہ داری کے تحت صدر کو بریفنگ دی۔ میڈیا میں گھڑی گئی بے بنیاد افواہوں پر بھی گفتگو ہوئی۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کولیشن حکومت کا لازمی جز ہیں۔
بغیر مشاورت کے اتحادی حکومت نہیں چل سکتی۔ ہر اہم معاملے پر باہمی مشاورت اور اعتماد لیا جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر اس نقطہ نظر سے اتفاق لازم نہیں۔
خواجہ آصف کا مقصد سیاسی و عسکری قیادت کی یکجہتی دکھانا تھا۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے دونوں قیادتوں کا ایک پیج پر ہونا لازم تھا۔ میں خواجہ آصف کی بات کے مقصد سے اتفاق کرتا ہوں۔
ہائبرڈ نظام کا لفظ منفی مفہوم رکھتا ہے، اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
سیاسی و عسکری قیادت معاشی بحالی اور قومی استحکام کے لیے متحد ہیں۔ معرکہ حق میں کامیابی قیادت کے اتحاد کا ثبوت ہے۔ مہنگائی پر عوامی ردعمل فطری ہے، حکومت سبسڈی نہیں دے سکتی۔
آئی ایم ایف معاہدے کے باعث سبسڈی ختم کی گئی، فیصلے کی مجبوری تھی۔
حکومت کی کوشش ہے کہ اگلے بجٹ تک آئی ایم ایف سے نجات ملے۔ بجلی و پیٹرول اسی قیمت پر دیں گے جو حکومت کو میسر ہے، سبسڈی ممکن نہیں۔ چینی کی برآمد کا فیصلہ سٹاک وافر ہونے پر کیا گیا تھا، بعد میں شارٹیج آئی۔
پی ڈی ایم حکومت چینی درآمد کرکے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ چینی کی قیمتیں کنٹرول میں آ گئیں تو شاید درآمد کی ضرورت نہ پڑے۔ پارلیمانی نظام میں حکومتی پالیسی پر تنقید جمہوریت کا حصہ ہے۔ پارٹی رہنماؤں کے سوالات احتجاج نہیں بلکہ حکومت کی توجہ دلاؤ مہم ہیں۔
گورنر آئینی عہدہ ہے مگر حکومت کا نمائندہ بھی ہوتا ہے۔ گورنر کی سرگرمیاں مکمل طور پر غیرسیاسی نہیں ہو سکتیں۔ اپوزیشن کے پاس ووٹ زیادہ ہوں تو وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ وزیراعلیٰ اعتماد کھو دے تو استعفیٰ دینا آئینی تقاضا ہوگا۔
مزید پڑھیں :بشریٰ بی بی کو بھی کتابوں، ڈاکٹر اور ملاقات سے محروم رکھا گیا ہے،نعیم حیدر پنجوتھہ
