اہم خبریں

عمران خان کی طرز سیاست سے پاکستان کو پاک کرنا ہوگا،خواجہ آصف

راولپنڈی (اے بی این نیوز)وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حملوں کی تین کوششیں پہلے ہو چکی ہیں، یہ چوتھی بھی متوقع ہے۔ پشاور سے حملہ آور آ چکے، ماضی میں اندرونی استحکام کمزور تھا۔ اب صورتحال مختلف ہے، اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ حکومت کسی کو نہیں روکے گی، جس کا احتجاج کا حق ہے وہ کرے۔
حکومت کی پوزیشن اب پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ قاسم خان کسی احتجاج میں والد کیلئے شریک ہوتے ہیں تو یہ خاندانی معاملہ ہے۔ علی امین گنڈاپور کی جارحانہ گفتگو صرف ووٹرز کو چارج کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ پارٹی قیادت ورکرز کو چھوڑ کر چائے پینے نکل گئی، خلوص یکطرفہ رہا۔
سیاسی مذاکرات کے دروازے اب بھی کھلے ہیں، وزیراعظم نے واضح پیغام دیا ہے۔ حکومت نے مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم دیا، اب پی ٹی آئی کی مرضی ہے۔ کسی کو زبردستی مذاکرات پر نہیں لایا جا سکتا، اب قسمت آزمانے کا وقت ہے۔
بانی پی ٹی آئی کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ پی ٹی آئی میں سیاسی کلچر ڈیولپ نہیں ہو سکا،شاہ محمود، یاسمین راشد سمیت قید لیڈرشپ مذاکرات کی حمایت کر چکی ہے۔ سیکنڈ لائن لیڈرشپ مذاکرات پر متفق، مگر فیصلہ بانی نے کرنا ہے۔
بانی پی ٹی آئی خود بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے خواہشمند رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی طرز سیاست سے پاکستان کو پاک کرنا ہوگا۔ ملک کا وجود داؤ پر ہے، بانی پی ٹی آئی اپنی رہائی کا رونا روتے ہیں۔ سیاست کسی ایک شخص کے گرد نہیں گھوم سکتی۔
گنڈاپور 82 فیصد عوامی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقت مختلف ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں عام قیدی سے زیادہ سہولیات حاصل ہیں۔ ہم نے کسی کو نہ پرل کانٹیننٹ میں رکھا نہ انتقامی سیاست کی۔ بانی پی ٹی آئی کے شکوے سیاسی بیانیے کا حصہ ،حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ
اگر شکایت ہے تو میڈیا خود جیل جا کر دیکھے، حقائق سامنے آئیں۔ بانی پی ٹی آئی کے امریکہ میں دیے گئے بیانات ان کے کردار کا ثبوت ہیں۔ مخالفین صرف ہمدردی سمیٹنے کیلئے جیل کی کہانیاں بنا رہے ہیں۔ سیاسی اختلاف کا مطلب ذاتی حملے یا کردار کشی نہیں ہونا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر الزامات لگانے سے پہلے مؤقف لینا ضروری ہے۔ ذاتی زندگی یا عقائد پر حملے اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہیں۔ بغیر تصدیق کے بات پھیلانا آزادیِ اظہار نہیں، بدنیتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کردار کشی سائبر کرائم کے زمرے میں آتی ہے۔
صحافت کا اصول ہے کہ ہر خبر سے پہلے فریقِ مخالف کا مؤقف لیا جائے۔ حکومت کا سوشل میڈیا پر کسی بھی جھوٹی مہم سے کوئی تعلق نہیں۔ یوٹیوب چینلز اور سوشل پلیٹ فارمز پر ضابطہ اخلاق ضروری ہے۔
کسی کی ساکھ پر حملہ کرنے سے پہلے اس کا مؤقف لینا انصاف کا تقاضا ہے۔
ملک ریاض جیسے طاقتور افراد پر بات کرنا میڈیا کے لیے ممکن نہیں رہا۔ میرے انٹرویوز میں بڑے نام لیے، مگر تینوں پروگرامز سینسر کر دیے گئے۔ حامد میر نے میرے کٹے ہوئے پروگرام پر سٹینڈ لیا، اگلا شو کرنے سے انکار کیا۔

مزید پڑھیں :محکمہ سوئی گیس،عجب سروس ، غضب کہانی

متعلقہ خبریں