اہم خبریں

توہینِ مذہب مقدمات میں الزامات کی نوعیت مشکوک؟ اسلام آباد ہائیکورٹ ایف آئی اے پر شدید برہم

اسلام آباد (  محمد ابراہیم عباسی       )اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں لگائے گئے الزامات کی نوعیت اور ان پر ہونے والی تفتیش کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی تفتیشی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے اور کئی مقامات پر شدید اظہارِ برہمی کیا۔ تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ توہینِ مذہب کے ان مقدمات میں سزا پانے والے 93 قیدیوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں حیران کن طور پر سب کے بیانات ایک جیسے تھے۔ جسٹس سردار اعجاز اس پر حیران ہوئے اور ریمارکس دیے کہ ایک قیدی سندھ سے، ایک لاہور سے اور ایک بلوچستان سے ہے، پھر بھی ان کے بیانات میں اتنا اتفاق کیسے ہو سکتا ہے؟

جسٹس اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ تمام قیدیوں نے راؤ عبدالرحیم، حسن معاویہ، ایمان اور شیراز فاروقی کے نام لیے، جو اس معاملے میں غور طلب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ HRCP کی رپورٹ ایف آئی اے کو بھیجی گئی، لیکن ایف آئی اے کی طرف سے جو جواب دیا گیا وہ کسی طالبعلم کی تحریر لگتی ہے۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ ایف آئی اے جیسے ادارے کے اعلیٰ افسران نے ایک سنجیدہ نوعیت کی رپورٹ پر نہ تو کوئی باضابطہ ردعمل دیا اور نہ ہی کسی اعلیٰ افسر کو تحقیقات کیلئے مقرر کیا۔ جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا کہ اگر ایک قانونی اور ادارہ جاتی رپورٹ پر بھی صرف آدھے صفحے میں جواب دیا جائے تو ایسی انویسٹی گیشن ایجنسی پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ “یہ کام تو ایک کانسٹیبل بھی کر سکتا ہے، ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔” عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا کسی کیس میں مدعی کے موبائل کا فرانزک کیا گیا؟ اور کیا صرف ویڈیوز اور تصاویر کی بنیاد پر کارروائی شروع کر دی گئی؟عدالت نے سماعت کے اختتام پر کیس کی مزید کارروائی 10 جولائی تک ملتوی کر دی اور تجویز دی کہ اس سارے معاملے کی شفاف تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ سچ عوام کے سامنے آ سکے۔
مزید پڑھیں :پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے لمبی پائپ لائنز بچھائی جا رہی ہیں، مریم نواز

متعلقہ خبریں