اسلام آباد ( اے بی این نیوز )سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے اےبی این کےپروگرام ’’سوال سےآگے‘‘میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ سیاسی جدوجہد ہمارا آئینی حق ہے، ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔ ہم ہر گلی، ہر گاؤں، ہر کریے میں جائیں گے۔ جمہوریت، آئین اور عدلیہ کی آزادی کیلئے مکالمے کو تیار ہیں۔ فروری 2024 کے الیکشن فراڈ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ کوئی ایسی ڈیل قبول نہیں جو الیکشن کے فریب کو چھپائے۔
پاکستان کو آئین کی راہ پر واپس لانا ہے۔ عوام سے بھی بات کریں گے، فیصلہ سازوں سے بھی کریں گے۔ مذاکرات صرف آئین، قانون اور جمہوریت پر ہوں گے۔ آزاد عدلیہ اور شفاف انتخابات ہماری جدوجہد کا مرکز ہیں۔ ڈیل نہیں، صرف آئینی حل چاہتے ہیں۔ بات صرف تب ہو گی جب وہ بامقصد اور آئینی ہو۔ اصل طاقت کو بات کرنی چاہیے، جو آئین کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ ہم پاکستان کی نمائندہ جماعت ہیں، ہر خطے میں موجود ہیں۔
پاکستان کو جوڑنے والی قوت ہیں، ہمارے بغیر انتشار ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ذریعہ بنا کر بھی بات ہو سکتی ہے۔ بات سنجیدہ ہو، صرف وقت کا ضیاع نہ ہو۔ ہم نظم و استحکام کی ضمانت ہیں، آئینی راہ کی حمایت کرتے ہیں۔ جمہوری عمل کی بحالی کیلئے تیار ہیں، شرط سنجیدگی ہے۔ مذاکرات صرف آئین و قانون کے لیے ہوں گے۔ اس وقت نظام بربریت، جھوٹ اور دھوکے پر قائم ہے۔ ہمیں موجودہ نظام میں آئین کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔
ہم عوام سے بات کر رہے ہیں، یہی اصل تحریک ہے۔ اسے تحریک کہیں یا مزاحمت، ہم جاری رکھیں گے۔ جب بھی کوئی آئین اور سچائی سے بات کرے گا، ہم تیار ہیں۔ یہ فائنل کال نہیں، ہر فیصلہ مشاورت سے ہوگا۔ بانی پی ٹی آئی نے دانشمندی کا روڈمیپ دیا ہے۔ ہم ہر قدم آئینی دائرے میں رکھیں گے۔ جہاں آئین کی نافرمانی ہوگی، وہاں ہم رکاوٹ بنیں گے۔ ہم نے پہلے بھی کوشش کی، آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
یہ عوام کی جنگ ہے، ہر سیاسی قوت کو شامل ہونا چاہیے۔ جو عوام کی جدوجہد میں ساتھ چلے، اسے خوش آمدید کہیں گے۔ یہ معاملہ مستقبل کا ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ ہم کسی سے توقع نہیں لگائے بیٹھے۔ ہم خود ایک مضبوط اور غالب قوت ہیں۔ پاکستان کے عوام کی جنگ ہم لڑ رہے ہیں۔ جو بھی عوام کے حق کے لیے کھڑا ہو، ہمارے ساتھ آ سکتا ہے۔ ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
یہ جدوجہد عوامی ہے، کسی فرد واحد کی نہیں۔ اس معاملے پر ابھی باقاعدہ مشاورت نہیں ہوئی۔ طارق فضل چودھری نے کہا کہ گنڈاپورکا بیان اس قابل نہیں جس کاجواب دیاجائے۔ گنڈاپور کے بیانات صرف ہیڈلائنز کیلئے ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ اور عمل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے۔ ماضی کے مارچ میں گنڈاپور کارکنوں کو چھوڑ کر خود بھاگے۔ ان کے بیانات قوم اور میڈیا کا وقت ضائع کرتے ہیں۔
ان کی باتوں پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ بیانات میں سنجیدگی نہیں، صرف شو بازی ہے۔ قوم سنجیدہ قیادت مانگتی ہے، ڈرامہ نہیں۔ یہی لوگ ہر بار ورکرز کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ بانی پی ٹی آئی کی سیاسی واپسی روکنا چاہتے ہیں۔ گنڈاپورپی ٹی آئی کے سیاسی میدان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے باہر نکلنے سے انہیں شدید خطرہ ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی واپسی پر سیاسی محاذ تیز ہو گیا۔
یہ لوگ کھیل کو خراب کرنا چاہتے ہیں، ہم نہیں مانیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قوت کمزور نہیں ہوگی۔ اگر اختیار واقعی صدر ٹرمپ کے پاس ہے تو صورتحال مشکل ہے۔ پاکستان کے داخلی اور خارجی سلامتی محافظ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فورسز پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کی ضمانت ہیں۔ ریاست کی سٹیبلٹی کیلئے فورسز اور حکومت ایک ساتھ ہیں۔
ملک کے حالات بہتر بنانےکیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ فورسز اور حکومت پاکستان کی سلامتی کے کلیدی ستون ہیں۔ سیاسی اختلافات کے باوجود ریاست کی حفاظت ضروری ہے۔ ہر ملک کی حکومت ہائبرڈ ہے، امریکہ، فرانس، برطانیہ، چین سب میں یہی نظام ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ہائبرڈ کو مسترد کرتی ہے تو بتائے کون چل سکتا ہے؟ کسی بھی ملک کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بغیر چل نہیں سکتی۔ ہائبرڈ سسٹم ہر ملک کی حقیقت ہے، پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر کوئی حکومت مضبوط نہیں رہ سکتی۔ عالمی مثالیں واضح کرتی ہیں، ہائبرڈ حکومت عالمی معمول ہے۔ پاکستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا تعاون ضروری ہے۔ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے۔ جنگ و جدل کی باتیں نہیں ہوتیں، یہی بڑی خیر کی بات ہے۔ زیادہ تر لوگ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
چھوٹے گروپ بھی بات چیت کے راستے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مفاہمت کے راستے کھلے ہیں، سیاسی شراکت داری ضروری ہے۔ معاملات پر بات چیت جاری رکھنا اولین ترجیح ہے۔
متعلقہ گروپ مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے ہیں۔ ہائی بلڈ ریجیم کا مطلب سمجھنا ضروری ہے۔ ہائبرڈ ریجیم وہ حکومت ہے جسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہو۔ پاکستان میں ہر دور میں ہائبرڈ ریجیم رہی ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر حکومت ہائبرڈ نظام پر چلتی ہے۔ ہر دور کی حکومت مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر حکومت کا چلنا مشکل ہے۔ پاکستان میں بھی سیاسی اور عسکری توازن کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں :بارشوں اور سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا گیا، برفانی جھیلیں پھٹنے اوردریاؤں میں طغیانی کا امکان