اسلام آباد (محمد ابراہیم عباسی) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک اہم فیصلے میں بچی کو اغوا اور زیادتی کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزم شالیم غوری کو ناکافی اور غیر مستند شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج نے شالیم غوری کو عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی، جس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ عدم ادائیگی کی صورت میں ملزم کو مزید 6 ماہ قید بھگتنا ہوگی۔ تاہم ہائیکورٹ نے شواہد اور گواہوں کے بیانات میں تضادات کو بنیاد بناتے ہوئے فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق فرانزک شواہد کی محفوظ تحویل اور بروقت منتقلی میں واضح تضادات تھے، جنہوں نے استغاثہ کے مقدمے کی ساکھ کو متاثر کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے فوجداری مقدمات میں جہاں سزائے موت یا عمر قید جیسی سنگین سزائیں دی جا سکتی ہوں، وہاں شواہد کو محفوظ رکھنا اور ان کی ترسیل کے طریقہ کار کا درست ہونا ناگزیر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فلک خلیل، جنہوں نے متاثرہ لڑکی کے نمونے حاصل کیے، جرح کے دوران تسلیم کیا کہ انہوں نے بیان میں یہ وضاحت نہیں کی کہ نمونے کیسے محفوظ کیے گئے۔ اسی طرح، ڈاکٹر عبداللہ نے ملزم کا ڈی این اے سیمپل لیا، مگر وہ بھی جرح میں تسلیم کر گئے کہ نمونوں کی منتقلی اور حفاظت سے متعلق تفصیلات ان کے بیان کا حصہ نہیں تھیں۔
ایک اور دلچسپ پہلو یہ سامنے آیا کہ سب انسپکٹر قمر اعجاز، جنہوں نے سیمپل فارنزک لیب بھیجے، جرح میں تسلیم کر چکے کہ انہوں نے نمونے محمد اعجاز کے نام سے بھیجے تھے، حالانکہ وہ خود قمر اعجاز ہیں — اور یہ سنگین غلطی ریکارڈ کا حصہ بنی۔
مقدمہ گھریلو ملازمہ مسمات ثمینہ کی درخواست پر درج کیا گیا، جنہوں نے الزام عائد کیا کہ جون 2022 میں سلیم اور دو افراد نے متاثرہ لڑکی “سویرا” کو آئی-8 کے قریب ایک گاڑی میں زبردستی اغوا کیا۔
مقدمے کی ابتدائی تفتیش اے ایس آئی جمشید احمد نے کی جبکہ بعد میں انسپکٹر یار محمد اور اے ایس آئی قمر اعجاز نے اسے آگے بڑھایا۔
عدالت نے قرار دیا کہ مدعی اور گواہوں کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں اور ان کا طرزِ عمل ناقابلِ اعتبار پایا گیا، جو استغاثہ کے مقدمے کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
راولپنڈی:گھر میں گیس لیکیج دھماکہ، 7 افراد زخمی،گھر کو آگ لگ گئی