اہم خبریں

ضد سے نہیں، سیاسی مفاہمت اور بات چیت سے ہی حل نکل سکتا ہے،عمران اسماعیل

اسلام آباد( اے بی این نیوز   )عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا پاور ٹاکس ٹو پاور مؤقف ایک بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوئی۔ سیاسی جماعتوں سے لا تعلقی نے پارٹی کو مکمل طور پر تنہا کر دیا۔ اداروں سے ٹکراؤ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے سودمند نہیں۔ وکلا سیاست نہیں کر سکتے، قیادت کا حق صرف سیاسی کارکنوں کو ہے۔ سیاسی فیصلے وکیلوں کی مشاورت سے نہیں، سیاسی سوچ سے ہونے چاہییں۔ اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے، اس سے ٹکراؤ نہیں، راستہ نکالنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کو فوری طور پر دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات شروع کرنے چاہییں۔ اتحادی سیاست سے دوری نے پارٹی کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کر دیا۔ پروگرام اے بی این نیوز ڈیبیٹ میں گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ 9 مئی جیسے واقعات نے پارٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
ریزرو سیٹوں سے محرومی، انتخابی نشان کا چھن جانا بڑا سیاسی دھچکہ ہے۔ ضد سے نہیں، سیاسی مفاہمت اور بات چیت سے ہی حل نکل سکتا ہے۔ پارٹی کو قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر ناکامی کا سامنا ہے۔
فیصلہ سازی چند افراد تک محدود تھی، ہم جیسے لوگ شریک نہیں تھے۔ میں، علی زیدی اور اسد عمر اس حکمتِ عملی کے مخالف تھے۔ ہماری سیاسی تربیت ہمیشہ امن، عوامی خدمت اور ترقیاتی وژن پر رہی ہے۔ ہم سیاست کو طاقت کا کھیل نہیں، عوامی فلاح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت مکمل طور پر غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
لیڈرشپ کے اعلانات بے اثر ثابت ہو رہے ہیں، کوئی سننے کو تیار نہیں۔ پارٹی کے اندر ہی لیڈرشپ کی عزت نہیں رہی، باہر کا تو سوال ہی نہیں۔ تحریک چلانے کی بات سن کر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں، کوئی تیار نہیں ہوتا۔ پارٹی میں کام کرنے کا جذبہ ختم ہو چکا ہے، عملی تحریک مفلوج ہے۔
کارکنان کا ماننا ہے کہ موجودہ لیڈر شپ مکمل طور پر نالائق ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی ایسے لوگوں کے حوالے کی جن کے پاس سیاسی شعور نہیں۔ عدالتی مقدمات میں کوئی ٹھوس حکمتِ عملی نہیں اپنائی گئی۔ پانامہ کیس میں جو سیاسی اسمارٹنس تھی، وہ ان مقدمات میں نہیں۔
بانی روز سپریم کورٹ آتے تھے، میڈیا اور وکلا کی سمت خود طے کرتے تھے۔ کیسز میں کوئی بار صدر، کوئی بار ممبر تک عدالت میں موجود نہیں ہوتا۔ حامد خان اور سلمان راجہ مکمل تنہائی میں کیس لڑ رہے ہیں۔
مفاہمت کی کوشش ہو تو جیل سے سخت بیان آتا ہے۔ مذاکرات کی بات ہو تو بانی براہ راست طاقتوروں سے بات پر اصرار کرتے ہیں۔ جب لڑائی کی فضا بنتی ہے، تو بانی نرم لہجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے مؤقف اور جرات پر اختلاف نہیں۔ ہم بندوق نہیں اٹھا سکتے، ہم سیاستدان ہیں، اور سیاسی راستہ ہی اپنائیں گے۔

مزید پڑھیں :خیبر پختونخوا میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کے انخلاء کےلئے دی گئی ڈیڈ لائن 30 جون کو ختم ہورہی ہے

متعلقہ خبریں