اہم خبریں

امریکہ اسرائیل کی نیندیں حرام، روس کے صدر سے ایرانی وزیر خارجہ کی ہنگامی ملاقات،بڑی پیش رفت،جانئے کیا

ماسکو (   اے بی این نیوز )روسی صدر ولادی میر پوتن اور ایرانی وزیر خارجہ عباسعراقچی کے درمیان ایک اہم ملاقات ہو ئی۔ یہ ملاقات امریکی فوجی کارروائیوں کے بعد ہوئی، جو ایرانی جوہری سہولیات پر ہدف بنائی گئی تھیں۔ یہ ملاقات مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ہوئی، جہاں امریکی حملوں نے ممکنہ طور پر تنازعہ کو بڑھا دیا ہے، اور روس کا کردار ایران کے ساتھ ایک وسیع حکمت عملی اتحاد کا حصہ ہے، جو فوجی اور جوہری تعاون کو شامل کرتا ہے۔
ملاقات میں سفارتی کوششوں کو اجاگر کیا گیا ہے، جو صورتحال سے نمٹنے کے لیے کی گئی ہیں، خاص طور پر روس کے کردار کو دیکھتے ہوئے، جو ایران کے لیے ثالث یا اتحادی کے طور پر اہم ہے، خصوصاً جوہری پروگراموں اور علاقائی استحکام سے متعلق تاریخی اور جاری جیو پولیٹیکل ڈائنامکس کو مدنظر رکھے ہو ئے ہے۔
اس تناظر میں، ایرانی وزیر خارجہ عباس ارشدچی کی روس کے ساتھ ملاقات ایک اہم قدم ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران اور امریکہ کے درمیان عمان کی ثالثی میں روم میں چار گھنٹوں کی بات چیت ہوئی، جہاں امریکی نمائندہ خصوصی سٹیفن وٹکوف نے ایران سے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ تاہم، ایران نے یورینیم افزودگی کو “غیر قابل مذاکره حق” قرار دیا اور روس کو اپنا اتحادی سمجھ کر مدد مانگی ہے۔
ایران آبزرور کی جانب سے شیئر کی گئی تصویر میں صدر پوتن اور وزیر خارجہکو ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ تصویر مسکو میں ایک رسمی ملاقات کے دوران لی گئی، جہاں دونوں رہنماوں نے خطے کی سلامتی اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر تبادلہ خیال کیا۔
روس اور ایران کے درمیان ایٹمی توانائی کے حوالے سے طویل عرصے سے تعلقات رہے ہیں۔ روس نے ایران کے بوشهر ایٹمی پلانٹ کی تعمیر کی اور 2015 کے جوائنٹ کمپری ہینسivے پلان آف ایکشن (JCPOA) میں ایران کے حق خود ارادیت کی حمایت کی تھی۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، روس نے اسرائیل سے معاہدہ کیا ہے کہ وہ بوشهر پلانٹ پر تعینات روس کے عملے کی حفاظت کرے گا، جو ایران کے لیے ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔
اس ملاقات سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کی درخواست پر ایک ایمرجنسی اجلاس طلب کیا، جسے روس، چین، اور پاکستان نے حمایت کی۔ عالمی ایٹمی واچ ڈاگ (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی نے ایٹمی تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی اور دونوں فریقوں سے “حد سے زیادہ تحمل” کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا کہ اگر ایران جوابی کارروائی کرتا ہے تو یہ اس کی تاریخ کی “بڑی غلطی” ہوگی۔
صدر پوتن نے حال ہی میں خدشہ ظاہر کیا کہ دنیا تیسرے عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، اور انہوں نے ایران کو “ہمارے مشترکہ دشمنوں کے خلاف اتحادی” قرار دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس ایران کو اپنی جغرافیائی اور سیاسی حکمت عملی میں اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔یہ ملاقات ایران کے لیے نہ صرف امریکی دباؤ سے نمٹنے کا ایک موقع ہے بلکہ روس کے ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ جیسے جیسے 23 جون کی ملاقات قریب آتی جا رہی ہے، عالمی برادری کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ کیا یہ بات چیت کشیدگی کو کم کرے گی یا عالمی تصادم کو مزید ہوا دے گی۔ پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے لیے بھی یہ صورتحال غور طلب ہے، کیونکہ اس کا اثر خطے کی مجموعی سلامتی پر پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں :امریکی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا،پوری صہیونی ریاست گونج ا ٹھی

متعلقہ خبریں