اسلام آباد( اے بی این نیوز )فیصل چودھری نے کہا ہے کہ امریکہ سے 2گھنٹے کی ملاقات، صرف چند سیکنڈ کی بریفنگ تشویشناک ہے، ایران اسرائیل کشیدگی پر پاکستان کی خاموشی خطرناک ہو سکتی ہے۔ پاکستان پر ایران تنازع کے اثرات آئل پرائسز کے ذریعے آئیں گے۔
اعلیٰ سطح میٹنگ کی ٹریڈ تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ ٹرمپ ہمیشہ کُھل کر بات کرتا ہے، اس بار غیر معمولی خاموشی رہی۔ ایران کے ساتھ عالمی سطح پر سخت فیصلے متوقع ہیں۔ آپٹکس جیسے سٹریٹجک مسائل پر بھی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔ پروگرام اے بی این نیوز بدلو میں گفتگو کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ
خفیہ ڈپلومیسی کے اس انداز سے قوم میں ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ رولر کوسٹر رہے ہیں۔ ایران اسرائیل کشیدگی سے پاکستان متاثر ہوگا۔ 2گھنٹے کی میٹنگ کو صرف 20 سیکنڈ میں سمیٹ دینا غیر سنجیدگی ہے۔
جذبات نہیں، پالیسی حقائق پر مبنی ہونی چاہیے۔ فوجی نمائندے میدان میں ڈٹ کر لڑتے ہیں، باہر مظاہرے قابل افسوس ہیں۔ واشنگٹن کے باہر مظاہرین پی ٹی آئی کے لوگ نہیں تھے۔ شہباز گل کا عمل سیاسی فائدے کے بجائے نقصان دہ تھا۔ پاکستان میں سیاسی شدت پسندی سے ادارے کمزور ہو رہے ہیں۔
خارجہ پالیسی اور داخلی سیاست میں فرق سمجھنا ہوگا۔ سوشل میڈیا لائکس کے پیچھے قومی مفاد قربان نہیں کیا جا سکتا۔
سردار مسعود خان نے کہا کہ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل کی ملاقات سے دہلی میں زلزلے کی کیفیت ہوگی۔ بھارت نے برسوں واشنگٹن میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ دہلی کا سخت لب و لہجہ اب شکست سے دوچار ہوا۔
امریکا میں پاکستان کے خلاف بھارتی مہم کو دھچکا لگا۔ بائیڈن انتظامیہ کے لیے بھی یہ رپورٹ بڑا جھٹکا ہے۔ بھارت کی یہ شکست گزشتہ ماہ کی جنگ سے کم نہیں۔ چین کی خارجہ پالیسی طویل المیعاد اور وسیع النظر ہے۔
پاکستان چین تعلقات میں کوئی خلل نہیں پڑے گا۔ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات چین کے ساتھ تصادم میں نہیں آئیں گے۔ جنوبی ایشیا میں امن کیلئے پاکستان امریکہ سے مل کر کام کرے گا۔
ایران اسرائیل کشیدگی پر پاکستان اپنی سفارت کاری کو متحرک کرے گا۔
پاکستان دہشتگردی کا سب سے بڑا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستان اور امریکہ نے دہشتگردی کے خاتمے پر اتفاق کر لیا ہے۔ تحریک طالبان، داعش، بی ایل اے اور بی ایل ایف بھارت کے آلہ کار۔
متبادل توانائی کے شعبے میں امریکی سرمایہ کاری مزید بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان سیاسی یکجہتی کے قیام کیلئے دہائیوں سے کوشاں ہے۔ انتخابات کا تسلسل جمہوری عزم کی علامت ہے۔ مثالی جمہوریت کا کوئی واحد ماڈل دنیا میں موجود نہیں۔ جمہوری سوالات امریکہ سمیت تمام ممالک میں اٹھتے ہیں۔
پاکستان کو اپنے مسائل خود حل کرنے کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ مغرب کی خارجہ پالیسی مفادات پر مبنی ہے، اقدار پر نہیں۔ اسرائیل کو ماڈل ڈیموکریسی کہنا سفارتی تضاد ہے۔ اسرائیل کی پالیسیاں جمہوری اقدار سے متصادم ہیں۔
ایران پر اسرائیلی حملہ جمہوری دعوؤں کی نفی ہے۔ عالمی سفارت کاری آئیڈیلزم نہیں، حقیقت پسندی کا میدان ہے۔ پاکستان اس وقت دہشتگردی کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔ داعش، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور بی ایل ایف کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔
پاکستان و امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا۔ پاکستان اور امریکہ اقتصادی تعاون کو وسعت دینے پر متفق ہے۔ متبادل توانائی میں امریکی سرمایہ کاری مزید بڑھ سکتی ہے۔
امریکہ سے تعلقات کی بحالی صرف اقتصادی نہیں، سیکیورٹی پہلو بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں :ہزاروں مفت موبائل فونز،مفت وائی حاصل کریں،بڑی سکیم آگئی، جانئے تفصیلات