اہم خبریں

پنجاب حکومت کا ٹیکس فری بجٹ پیش ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافے کی منظوری

لاہور ( اے بی این نیوز    )پنجاب حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا ہے، جس کا مجموعی حجم 5335 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ اس بجٹ میں عوامی ریلیف اور ترقیاتی منصوبوں پر بھرپور توجہ دی گئی ہے۔ بجٹ اجلاس کے دوران وزیر خزانہ پنجاب، مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ بجٹ بھی گزشتہ برس کی طرح ٹیکس فری ہوگا۔ انہوں نے اس موقع پر پاکستان کی حالیہ کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھارتی غرور کو خاک میں ملا دیا، اور پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف سرخرو ہوئی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم اور افواجِ پاکستان کو پاکستان کی اس عظیم فتح پر خراجِ تحسین پیش کیا۔

اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی موجود تھیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کا مشن صوبے کو غربت اور بیروزگاری سے پاک کرنا ہے اور اس سلسلے میں کئی اہم اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے ترقی کے راستے کھول دیے گئے ہیں اور طلبہ کو لیپ ٹاپ کی فراہمی بلاتفریق جاری ہے۔ اب تک پچاس ہزار طلبہ کو لیپ ٹاپ دیے جا چکے ہیں، جبکہ 55 ہزار طلبہ کو ہونہار اسکالرشپ بھی دی گئی ہے۔

بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج اور شور شرابہ کیا، تاہم وزیر خزانہ نے کہا کہ پنجاب حکومت دن رات ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ انہوں نے عالمی حالات پر بات کرتے ہوئے ایران اور فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ تعلیم، صحت، سیاحت اور دیگر اہم شعبوں میں بنیادی اصلاحات اور ترقیاتی کام جاری ہیں۔ اب تک 6104 ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں تاکہ پنجاب کے ہر علاقے کو ترقی کے ثمرات پہنچ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال، تعلیمی ادارے، سڑکیں اور صنعتیں تیزی سے تعمیر ہو رہی ہیں اور اربوں روپے کے منصوبوں میں کوئی بدعنوانی سامنے نہیں آئی۔ ان کے مطابق یہ بجٹ عوام کی خدمت کا بجٹ ہے جو مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جیسے اہم مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوگا۔

بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ ترقیاتی اخراجات کے لیے 1240 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ کل بجٹ کا 23 فیصد بنتے ہیں اور گزشتہ برس کی نسبت 47 فیصد زیادہ ہیں۔ جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 2706.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جن میں کرنٹ کیپٹل کے لیے 580.2 ارب روپے شامل ہیں۔ مقامی حکومتوں کو پی ایف سی ایوارڈ کے تحت 764.2 ارب روپے دیے جائیں گے۔ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے 150 ارب روپے اور میونسپل کارپوریشن کے لیے 20 ارب روپے کی خصوصی گرانٹس بھی دی گئی ہیں۔

سماجی تحفظ کے لیے الگ سے 70 ارب روپے کا پیکج مختص کیا گیا ہے تاکہ غریب اور معذور افراد کو ریلیف دیا جا سکے۔ وفاقی حکومت سے 4062.2 ارب روپے کی ترسیلات کی توقع کی جا رہی ہے، جبکہ پنجاب خود 828.2 ارب روپے کی آمدنی حاصل کرے گا۔ اس میں پنجاب ریونیو اتھارٹی سے 340 ارب، بورڈ آف ریونیو سے 135.5 ارب، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے 70 ارب اور مائنز اینڈ منرلز سے 30 ارب روپے شامل ہیں۔ آئی ایم ایف اور وفاقی حکومت کے معاہدے کے تحت 740 ارب روپے کا حصہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں خاص توجہ دی گئی ہے، جہاں ترقیاتی مد میں 149 ارب روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 661 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ہونہار اسکالرشپ پروگرام کے لیے 15 ارب روپے اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کے لیے 15.1 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے لیے 35 ارب روپے، چیف منسٹر میل پروگرام کے لیے 7 ارب روپے، سپیشل ایجوکیشن کے لیے 5 ارب روپے اور خصوصی تعلیمی اداروں کے لیے 1.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آٹھ اضلاع میں لڑکیوں کے کالجز کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

عوامی سہولت کے دیگر منصوبوں میں سولر پینل اسکیم کے لیے 14 ارب، لاہور میں بائیو فیول پلانٹ کے لیے 4 ارب، صاف پانی پروگرام کے لیے 5 ارب، اور ماڈل ولیج منصوبے کے لیے 25 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سی ایم ایساں کاروبار پروگرام کے تحت 70 ارب روپے اور سی ایم پرواز کارڈ کے ذریعے بین الاقوامی روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔

سیاحت اور ماحولیات کی بہتری کے لیے چانگا مانگا ایکو ٹورزم پر 4 ارب، ہائی اسپیڈ ریلوے پر 2 ارب، کھیلوں کے انفراسٹرکچر کے لیے 1.6 ارب، پاکستان کے لیے پودے لگانے کی مہم پر 8.3 ارب، اور جیل اصلاحات کے لیے 14.8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسمارٹ سیف سٹیز منصوبے کے لیے 5.8 ارب روپے اور پنجاب کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔یہ بجٹ نہ صرف موجودہ مالی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ مستقبل میں ترقی کی بنیاد بھی رکھتا ہے، جس میں عام شہری کی زندگی میں بہتری، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع، تعلیم و صحت کی سہولتیں، اور شفاف حکمرانی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں :

متعلقہ خبریں