اسلام آباد (رضوان عباسی سے) آزاد کشمیر کے منی لندن کہلانے والے ضلع میرپور میں ہاؤسنگ سوسائٹی مافیا کے مبینہ طور پر سرگرم ہونے کا بڑا اسکینڈل سامنے آ گیا۔ سٹی ہاؤسنگ سکیم کے نام پر اربوں روپے مالیت کی زمین ہتھیانے کی کوششوں کی بازگشت سرکاری دفاتر سے عوامی حلقوں تک پہنچ چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ ہاؤسنگ سکیم نے ضلع کونسل میرپور سے این او سی حاصل کر کے پلاٹوں کی فروخت کا آغاز کر دیا تھا جبکہ قانونی طور پر ضلع کونسل کو کسی ہاؤسنگ سکیم کا حتمی این او سی جاری کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔ یہ مکمل اختیار میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حاصل ہے، جو تاحال اس سکیم کو این او سی جاری نہیں کر سکی۔مقامی زرائع کا کہنا ہے کہ سوسائٹی نے مقامی افراد سے محض 250 کنال زمین 20 فیصد ایڈوانس ادائیگی پر خریدی لیکن 3200 کنال سے زائد رقبے کے این او سی کی درخواست جمع کروا رکھی ہے۔ اس کے علاوہ سوسائٹی کی جانب سے اراضی کے ساتھ واقع واپڈا کی قیمتی سرکاری زمین پر بھی نظریں جما رکھی گئی ہیں تاکہ منصوبے کو وسعت دی جا سکے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر آفس میرپور نے اس سکیم کو این او سی جاری کیا مگر محکمہ ماحولیات سمیت بعض متعلقہ اداروں کے عدم اعتراض سرٹیفکیٹس (NOCs) تاحال حاصل نہیں کیے گئے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ رولز آف بزنس اور متعلقہ ضوابط کے تحت کسی بھی ہاؤسنگ سکیم کا این او سی جاری کرنے کا مکمل اختیار صرف اور صرف متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حاصل ہوتا ہے۔
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر میرپور یاسر ریاض کے مطابق سٹی ہاؤسنگ سکیم کی درخواست گزشتہ ڈیڑھ سال سے زیر التوا تھی جس کے لیے 27 مختلف محکموں کے این او سیز درکار تھے۔ ان کے مطابق سوسائٹی نے تقریباً تمام لازمی این او سیز مکمل کر لیے، جس پر اسے 892 کنال پانچ مرلے اور نصف سرسائی رقبے پر این او سی جاری کیا گیا، تاہم یہ رقبہ کسی بھی باقاعدہ ہاؤسنگ سکیم کے لیے مقررہ کم از کم حد سے کم ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر آفس کا کردار صرف ریونیو ریکارڈ کی جانچ، زمین کی ملکیت کی تصدیق، زرعی سے رہائشی زمین میں تبدیلی اور مقامی تنازعات کی چھان بین تک محدود ہے۔ کسی بھی ہاؤسنگ سکیم کا حتمی این او سی جاری کرنا اس کے قانونی دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔زرائع کے مطابق میرپور میں اس وقت 17 نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی این او سی کے لیے درخواستیں متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس زیر غور ہیں۔ عوام کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کسی بھی سکیم میں سرمایہ کاری کرنے سے قبل متعلقہ اتھارٹی (MDA) سے اس کا حتمی اور باضابطہ این او سی ضرور چیک کریں تاکہ کسی دھوکہ دہی یا نقصان سے بچا جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اگر بغیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے این او سی کے کسی سکیم میں پلاٹ فروخت کیے جا رہے ہیں تو یہ عمل قوانین، ضوابط اور سوسائٹی ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔عوامی حلقوں نے حکومت آزاد کشمیر اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ہاؤسنگ مافیا کے خلاف فوری ایکشن لے کر اس ممکنہ فراڈ کو روکا جائے تاکہ شہریوں کی جمع پونجی محفوظ رہے۔#