اسلام آباد ( اے بی این نیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے 5-2 کی اکثریت سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو قانونی قرار دے دیا ہے۔ آئینی بینچ نے وزارت دفاع اور دیگر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کے 23 جولائی 2023 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔فیصلے کے مطابق آئینی بینچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کے فیصلے میں کالعدم قرار دی گئیں دفعات ٹو ون ڈی، ٹو ڈی ٹو اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59 فور بھی بحال کر دی۔
عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں 45 دن میں اپیل دائر کرنے کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی جائے۔اختلافی نوٹجسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ ان کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ 9 مئی کے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا جائے اور جو لوگ زیرِ سماعت ہیں انہیں متعلقہ عدالتوں کو منتقل کیا جائے۔انہوں نے لکھا کہ آرمی ایکٹ بنیادی طور پر فوجی اہلکاروں کے نظم و ضبط کے لئے ہے، جس میں بنیادی حقوق شامل نہیں ہوتے۔ سویلینز کو آرمی ایکٹ کے تحت نہیں لایا جا سکتا کیونکہ یہ آرٹیکل 175 کی خلاف ورزی ہے جو عدلیہ اور انتظامیہ کے الگ الگ ہونے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
پس منظر9 مئی 2023 کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اس دوران قومی اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے جس میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد تقریباً 1900 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا جا رہا ہے۔23 جولائی 2023 کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ تاہم، 13 دسمبر 2023 کو 6 رکنی بینچ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا۔
آخری سماعت9 دسمبر 2024 کو اس مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ آرمی ایکٹ سویلینز پر مخصوص حالات میں لاگو ہو سکتا ہے۔ عدالت نے اس دوران سویلین ٹرائل پر فیصلے سنانے کی حکومتی درخواست مسترد کر دی تھی۔اب سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے خلاف فیصلے سنانے کی اجازت دے دی ہے، جس کے بعد یہ معاملہ دوبارہ توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
مزید پڑھیں :پنجاب بھر کے تعلیمی ادارے 8مئی سے 10 مئی تک بند رہیں گے