اسلام آباد (اے بی این نیوز )جے یو ائی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پہلگام جیسے واقعات قابل تحسین نہیں ہوا کرتے اس واقعہ نے بھارت کی پوزیشن کو مشکوک بنا دیا ہے مودی حکومت نے اس معاملے کو گھمبیر بنا دیا ،بھارت نے واقعہ ہونے کے پانچ منٹ کے اندر پاکستان پر الزامات عائد کر دیئے۔
ہمارے اندر بھارت کو جواب دینے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ نریندر مودی کا کردار سب کے سامنے ہے۔ نریندر مودی جب وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ہندو مسلم فسادات کرائے حیران ہوں ایکملک کا وزیراعظم خطے کو آگ لگانا چاہتا ہے انٹرنیشنل فورم پر جانے سے پہلے ہندوستان اپنا موقف ہار چکا ہے آج کے دور میں کسی ملک پر اچانک جنگ مسلط نہیں کی جا سکتی ۔
پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا بھارت کو بھرپور جواب دیا جائے گا ۔وہ اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں اظہار خیال کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پوری پارلیمنٹ کو بلائے حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ تمام پارٹی سربران کو بلائے ۔ہم کسی شخصیت پہ نہیں پھنسنا چاہتے اگر حکومت عمران خان کو رہا کرتی ہے تو سر انکھوں پر ورنہ پارٹی تو ہے حکومت کو یہ مسئلہ نہیں اٹھانا چاہیے کہ عمران خان کو نہیں بلائیں گے ۔
تحریک انصاف کو نہیں کہنا چاہیے کہ ہم نہیں آئیں گے ایک جماعت نے سیاسی پوزیشن لی ہے حکومت کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مائنز اینڈ منرلز بل پر 2 صوبوں کو اعتراض ہے الیکشن کرانے کے لیے ادارہ موجود ہے اسے کام کرنے دیا جائے ہمارے لوگ مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں کیسے الیکشن میں نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں۔
بند کمرے میں بیٹھے لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکتا الیکشن کے معاملے پر ہمارا موقف ہے ڈمی الیکشن کمیشن کو بٹھا کر الیکشن کرایا گیا الیکشن کمیشن قانون میں موجود ایک شخص کا فائدہ اٹھا رہے ہیں الیکشن کمیشن میں ضمیر کے لوگ ہوتے تو استعفی دے دیتے ۔
قانون ضرور ہے مگر یہ لوگ استعفیٰ تو دے سکتے تھے نیا قانون بناتے ہوئے کچھ خامیاں بھی رہ جاتی ہیں جے یو ائی سمیت پوری اپوزیشن نے 26ویں آئینی ترمیم پر کام کیا ۔ ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلوں کی گنجائش شق سے ہم نے نکالی ہم ہر لمحے تمام اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں رہے اتفاق رائےسے ترمیم ہوئی ۔
ہم 26وینی ترمیم میں ووٹ نہ بھی دیتے تو حکومت پاس کرا لیتی ہمارے بغیر ترمیم پاس ہو جاتی تو تمام شقیں شامل ہو جاتی ہم پی ٹی آئی سے تعلقات کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔ پی ٹی ائی کے ساتھ ماضی میں بھی ہماری خوش تلخ یادیں تھیں پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں کے ساتھ ہمارے سیاسی اختلافات رہے ۔
سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات ہوتے ہیں ذاتی دشمنی نہیں بنانی چاہیے جے یو ائی نے فیصلہ کیا ہے جدوجہد اپنے پلیٹ فارم سے ہی کریں گے حکومت کے ساتھ جو بیٹھتا ہے وہ اتحادی بن جاتا ہے جو حکومت کے ساتھ شامل نہیں ہوتا وہ اپوزیشن کا حصہ ہوتا ہے جے یو ائی عوامی قوت ہے پاکستان کے عوام کی اسے سپورٹ حاصل ہے ۔
قومی یکجہتی سے بھارتی پراپیگنڈے کا مؤثر جواب دیا گیا۔ پہلگام واقعہ حساس مسئلہ تھا، بھارت نے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان نے پہلگام واقعے پر بروقت تشویش کا اظہار کیا۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، سب کو ایک قوم بن کر وطن کا دفاع کرنا ہوگا۔
آل پارٹیز کانفرنس وقت کی اہم ضرورت ہے، قومی اتحاد کا پیغام دینا ہوگا۔ یہ وقت پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں، قومی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا کہ کسی ایک شخصیت پر سیاست مرکوز کرنا نقصان دہ ہے۔
پی ٹی آئی کی نمائندہ قیادت سے بات ہو سکتی ہے، لچکدار رویہ اختیار کیا جائے۔ حکومت بانی پی ٹی آئی سے بات نہ کرنے کے بجائے مؤثر مذاکراتی حکمت عملی اپنائے۔ ریاستی ادارے سیاست سے دستبردار ہو کر غیر جانب دار کردار ادا کریں۔
عدلیہ کو متنازع بنانے سے ریاستی نظام متاثر ہوتا ہے، تمام فریقین محتاط رہیں۔ ہائی کورٹ ججز سے متعلق تنازعات سے اجتناب ضروری ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کو 26ویں آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینے کا مشورہ دیا تھا۔
غیر جمہوری قوتیں جب تک سیاست سے دور نہیں ہوں گی، امن ممکن نہیں۔ پاکستان و افغانستان افغان مہاجرین پر مشترکہ پالیسی بنائیں۔ افغان مہاجرین کی مختلف کیٹیگریز بنا کر ریاستی نظام پر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ افغانی شہریوں کا سرمایہ نکالنے سے پاکستان کی معیشت کو مشکلات سامنا ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں :عمران خان کا انکشافات سے بھر پور چیف جسٹس کے نام خط منظر عام پر آگیا،جیل میں ہو نے والے ظلم وستم سے پردہ اٹھا دیا