اہم خبریں

اصل سوال ہے موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں،جسٹس جمال مندو خیل

اسلام آباد ( اے بی این نیوز    )9 مئی کو حد کردی گئی۔ اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں۔ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں 9 مئی کا جرم سرزد ہوا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی کے فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کی سماعت کے دوران ریمارکس۔ کہا آرمی پبلک اسکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی۔ جب 21ویں آئینی ترمیم پاس ہوئی تو پی ٹی آئی نے ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت کی تھی۔ جسٹس رضوی نے کہا فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے۔ فوج میں ایک میڈیکل کور بھی ہوتی ہے۔
دونوں کور میں ماہر انجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔ کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے۔ جسٹس امین الدین خان بولے یہ تو قانون سازوں کا کام ہے۔ ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہوگی۔ یہ کیسے ہوگا ایک ملٹری ٹرائل ہو دوسرا ملزم اس سے الگ کر دیا جائے؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کریں گے۔ عام ایف آئی آر میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے۔
آفیشل سکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کیخلاف تھا۔ آفیشیل سکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کئے گئے ہیں۔ موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا۔ قانون اس پر کیسے اپلائی ہو سکتا؟جسٹس جمال مندو خیل نے کہا اصل سوال ہے کہ موجودہ نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں۔ سماعت 18 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید پڑھیں :طالبان کی وزارت شہری ترقیات کے دفتر پر خود کش حملہ،1جاں بحق،5زخمی

متعلقہ خبریں