کراچی ( اے بی این نیوز )پاکستان میں 2.4ملین کیسز ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں 24لاکھ کیسز زیر التواء ہیں۔ پاکستان اب تک سنگل ٹریک پر ہے۔ ہر تنازع عدالت میں آجاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا تقریب سے خطاب۔ کہا عدالت جانے کے بجائے معاملات ثالثی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس ججز کی تعداد محدود ہے۔ عالمی سطح پر ایک لاکھ لوگوں پر 90ججز۔ ہمارے پاس13ہیں۔ اس کامطلب ہمیں 15سے20ہزار ججز کی ضرورت ہے۔ پراسیکیوشن کورٹس میں 13سے14فیصد کیسز ہیں.اوآئی سی کاثالثی مرکزبہت اہمیت کاحامل ہے۔ ارکان ممالک کی عدلیہ کوتنازعات کےحل سےمتعلق بات کرنی چاہیے۔ جوڈیشل اکیڈمی میں ججزکی ٹریننگ کاپروگرام شروع کرناچاہیے۔
ثالثی سےمتعلق قوانین میں جدت کی ضرورت ہے۔ کسی بھی تنازع کی صورت میں پہلےعدالت سےرجوع کیاجاتاہے۔
عدالت سب سےآخری آپشن ہوناچاہیے۔ کیسزنمٹنےمیں ایک نسل گزرجاتی ہے۔ تنازعات کامتبادل حل عدالتی نظام کاحصہ ہے۔ دنیابھرمیں کمپنیوں میں اپنااےڈی آرسسٹم ہوتاہے۔ کمپنیوں کواپنےاےڈی آرپینل کےقیام کاسوچناچاہیے۔
ہرضلع میں اےڈی آرسینٹرہوناچاہیے۔ضلعی عدالتوں سےکیسزاےڈی آرکومنتقل کیےجانےچاہئیں۔ اسلام آبادضلعی کورٹ میں ماڈل اےڈی آرسینٹربنارہےہیں۔ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ میں بھی سینٹرزبنائےجائیں گے۔
وکلاکوسمجھناچاہیے اےڈی آرمستقبل ہے۔ تنازعات کےمتبادل حل کی طرف جانےکی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں :مذاکرات کے دروازے ہم نے نہیں، حکومت نے بند کئے،بیرسٹر گوہر