اہم خبریں

پارلیمنٹ حملے کا ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟ وہ سب سے سپریم ہے ،جسٹس حسن اظہر رضوی

اسلام آباد( نیوز ڈیسک )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے روبرو سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج اور حملے میں فرق ہے، سیاسی سرگرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، کیس میں آرمی ایکٹ کی شقوں پر وفاق کو سنا ہی نہیں گیا، عدالت کا فوکس 9 اور 10 مئی کے واقعات پر تھا نہ کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ بڑی عجیب بات ہے پہلے کہا آرمی ایکٹ پر بات نہ کریں اور پھر اس کی شقیں کالعدم بھی قرار دے دی گئیں، حکومت نے 9 مئی ملزمان کو ملٹری ٹرائل میں سزا پر اپیل کے حق سے انکار کیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پارلیمنٹ حملے کا ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟، وہ سب سے سپریم ہے، کیا پارلیمان خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی؟۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کے سامنے فوجی عدالتوں سے سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج اور حملے میں فرق ہے، سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، ریاستی املاک پر حملہ، ریاست کی سیکیورٹی توڑنا سیاسی سرگرمی نہیں۔جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں اٹارنی جنرل کا حوالہ ہے کہ کیس 9 مئی کے تناظر میں دیکھا جائے، حکومت نے 9 مئی ملزمان کو ملٹری ٹرائل میں سزا پر اپیل کے حق سے انکار کیا۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ 21 جولائی 2023ء کے آرڈر میں صرف 9 مئی کی بات کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا، عدالتی فیصلے میں اس پر کلین چٹ نہیں دی گئی، سوال تو ٹرائل کا ہے کہ یہ ٹرائل کہاں پر ہوگا؟۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں، اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 21 ویں ترمیم میں کہا گیا سیاسی کیسز آرمی کورٹ میں نہیں چلیں گے، 21 ویں ترمیم کے بغیر دہشت گردوں کیخلاف ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا تھا۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 21 ویں ترمیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی۔ جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا بھی جرم ہے، یہاں کور کمانڈر کا گھر جلایا گیا، ایک دن اور ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے، دفاتر پر حملے ہوئے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت جلائی گئی۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید کہا کہ ماضی میں لوگ شراب خانوں یا گورنر ہاؤس پر احتجاج کرتے تھے، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک وقت حملے ہوئے، جرم سے انکار نہیں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ حملے کا ملٹری ٹرائل کیوں نہ ہوا؟، وہ سب سے سپریم ہے، کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی؟۔ جسٹس حسن اظہر رضوی بولے کہ سپریم کورٹ پر بھی حملہ ہوا وہ بھی سنگین تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ یہاں بات ایکٹ کی سیکشن 2 ون ڈی ون کی ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے دی کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر وفاق کو مکمل سنا ہی نہیں گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر اٹارنی جنرل کو 27 اے کا نوٹس دیا گیا تھا؟، جسٹس یحییٰ صاحب کے نوٹ سے تو لگتا ہے اٹارنی جنرل کو سنا ہی نہیں گیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو کہا گیا تھا دلائل آرمی ایکٹ کے بجائے 9 اور 10 مئی واقعات پر رکھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو عجیب بات لگتی ہے، پہلے کہا آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کریں، پھر شقیں کالعدم بھی قرار دے دیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فیصل صدیقی نے تو عدالت میں کہا تھا آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج ہی نہیں کیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ویڈیو لنک پر موجود فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات سن لی ہے؟۔

جس پر انہوں نے کہا کہ جی میں نے کہا تھا کہ کیس کو آرمی ایکٹ کے بجائے آئین کے تحت دیکھا جائے، دیگر درخواستیں بھی دائر تھیں جن میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقیں کالعدم قرار دینے سے قبل وفاق کو شنوائی کا حق ملنا چاہیے تھا، عدالت کا فوکس 9 اور 10 مئی کے واقعات پر تھا نہ کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر۔خواجہ حارث نے کہا اکیسویں ترمیم میں اکثریتی ججز نے اپنے اپنے انداز سے ترمیم کو برقرا ررکھا، ملٹری ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ 9 ججز کا ہے، کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی کیس کے فیصلے پر نظرثانی ہونی چاہیے۔

عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ پیر کو پورا دن صرف یہی کیس سنیں گے، خواجہ حارث نے استدعا کی کہ اگر ممکن ہو تو کیس کو منگل تک لے جائیں، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے بتایا کہ ہم اپنے سارے مقدمات ڈی لسٹ کر چکے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب آپ ہر روز دلائل مکمل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں پھر توڑ دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں تیار کردہ پہلا سیٹلائٹ خلاء میں روانہ کردیا گیا

متعلقہ خبریں