اہم خبریں

کیا آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا سوال

فوجی عدالتوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سپریم کورٹ میں یہ سوال اٹھایا کہ آرمی افسر کے پاس اتنا تجربہ اور مہارت ہونی چاہیے کہ وہ سزائے موت کا فیصلہ صادر کرے؟۔ انہوں نے کہا کہ کیا ایک آرمی افسر کے پاس اتنی صلاحیت اور تجربہ ہوتا ہے کہ وہ سزائے موت جیسے اہم فیصلے دے سکے؟ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے تبصرہ کیا کہ جس افسر نے ٹرائل نہیں کیا، وہ کیسے فیصلہ کرسکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کے بارے میں ایک اپیل پر سماعت کر رہا تھا۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے طریقہ کار کو بہتر طریقے سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں فیصلہ کرنے والے آفیسرز کو اس طریقہ کار کے بارے میں مطمئن کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو آفیسر ٹرائل کرتا ہے، وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، بلکہ وہ کیس کو دوسرے اعلیٰ افسر کو بھیجتا ہے، اور وہ فیصلہ سناتا ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ان کے اپنے 34 سال کے تجربے کے باوجود وہ خود کو مکمل نہیں سمجھتے، تو کیا ایک آرمی افسر اتنا تجربہ رکھتا ہے کہ وہ سزائے موت جیسے سنگین فیصلے کرے؟

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ عوامی طور پر یہ تاثر ہے کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل صرف سزا دینے کے لیے ہوتا ہے، اور اس کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت میں، وکیل صفائی کے ساتھ ایک افسر بطور دوست ملزم کے ساتھ ہوتا ہے، اور ٹرائل کے دوران وکلا کے دلائل اور گواہان پر جرح کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خصوصی عدالتوں میں ججز کی جگہ افسران ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وضاحت کی کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل صرف حدود اور بدنیتی کی بنیاد پر سنی جا سکتی ہے، اور اس میں کسی بھی فیصلے کی تفصیلات پر بحث نہیں کی جا سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے یہ بھی کہا کہ فوج کے 7 لاکھ سے زیادہ جوانوں کے حقوق کا بھی مسئلہ ہے، اور انہیں بھی دوسری عدالتوں میں اپیل کا حق ہونا چاہیے۔

اس دوران، جسٹس مسرت ہلالی نے خیبر پختونخوا میں فوجی عدالتوں کے ٹرائلز کے بارے میں بات کی اور خواجہ حارث نے ہائی جیکنگ کے مقدمے میں فوجی عدالتوں کی غیرموجودگی کی وضاحت کی۔

مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ خبریں