اہم خبریں

حکومت اور پیپلز پارٹی میں دوریاں، دراڑیں پڑ گئیں،علیحدگی کی دھمکی دے دی

کراچی (اے بی این نیوز    )پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان مسلم لیگ ن(پی ایم ایل این) پر بنا مشاورت اور یک طرفہ فیصلوں کا الزام عائد کیا ہے اور شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دی ہے۔

اتوار کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت پیپلز پارٹی سے مشاورت کیے بغیر فیصلے کر رہی ہے، پورٹ اتھارٹی کے قیام پر سندھ حکومت کو اندھیرے میں رکھا گیا، گزشتہ 11 ماہ میں مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس بھی نہیں بلایا گیا۔

حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے فیصلہ سازی کے عمل میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی حکومت کو اعتماد میں نہ لینے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جس دن پیپلز پارٹی حمایت واپس لے گی اسی روز وفاقی حکومت بھی باقی نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) مسلسل ایسے فیصلے کر رہی ہے جس میں پیپلز پارٹی سے مشاورت کی جا رہی ہے نا اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی ترجمان شازی مری نے کہا کہ شاید مسلم لیگ (ن) کو معاملے کی سنگینی کا علم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت والی حکومت نے پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی (پی ایم ایس پی اے) کے قیام کے بارے میں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو اندھیرے میں رکھا۔

پیپلز پارٹی کی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وہ طویل عرصے سے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر رہے تھے، لیکن گزشتہ 11 ماہ میں سی سی آئی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ آئین کی مسلسل اور کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت والی حکومت کی جانب سے اہم قومی امور پر مشاورت نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے بھی آئین کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہیہے کیونکہ وہ قانونی طور پر ہر 3 ماہ بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں، یہ امر انتہائی تشویشناک ہے۔شازیہ مری نے مطالبہ کیا کہ میری ٹائم اینڈ شپنگ پورٹ اتھارٹی کے قیام کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جائے، اہم قومی امور پر فیصلے اتحادیوں اور صوبوں سے مشاورت کے بغیر نہ کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کے اقدامات ناقابل فہم ہیں اور اس سے گہری تقسیم پیدا ہوسکتی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ ملک کو آئینی اور قانونی اصولوں کے مطابق چلایا جائے، بحری امور اور پورٹ اتھارٹی کی سفارشات پر فیصلے کرنے سے پہلے اتحادیوں اور صوبوں سے مشاورت کی جائے۔واضح رہے کہ اس سے قبل دسمبر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت انتظامیہ کے پاس یکطرفہ فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم واحد سیاسی جماعت ہیں جو فخر سے کہہ سکتی ہے کہ ہم نہ تو سلیکٹڈ ہیں اور نہ ہی فارم 47 سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ نومبر 2024 میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حکومت پر عدم اطمینان کا اظہار کیے جانے کے چند روز بعد وزیراعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاملات کے حل کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

کمیٹی میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اقتصادی امور احمد خان چیمہ شامل تھے۔اس سے قبل بھٹو نے مبینہ طور پر وعدوں کی خلاف ورزی، مشاورت سے گریز اور رابطہ کرنے سے انکار پر شہباز انتظامیہ پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔اس سے قبل گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے بھی کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اتحاد نے ملک کے سیاسی پاور ہاؤس پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ اب اس اتحاد کا خمیازہ مسلم لیگ (ن) کو بھگتنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں :عمران خان و بشریٰ بی بی کے وکیل خالد یوسف چوہدری کا چھینا گیا موبائل فون بھارت پہنچ گیا

متعلقہ خبریں