اسلام آباد (اے بی این نیوز ) صاحبزادہ حامدرضا نے کہا ہے کہ ہمارے2بڑےمطالبات ہیں،چاہتےہیں26نومبراور9مئی پرجوڈیشل کمیشن بنایاجائے۔ عمران خان اوراسیران کی رہائی چاہتےہیں۔
کچھ لوگ راتوں رات پیپرسائن کرکےڈیل کرکےملک سےفرارہوگئےتھے۔ بانی کسی ڈیل کےتحت نہیں آئینی اورقانونی جنگ لڑکرباہرآناچاہتےہیں۔ ہم جن سیاسی قیدیوں کی بات کررہےہیں ان کی رہائی بھی اسی طریقہ کارپرہوگی۔
صرف پنجاب کےاندرایف آئی آرزکی تعدادہزاروں میں ہے۔ ہرایف آئی آرکےاندر100،200لوگوں کےنام لکھےہوئےہیں۔ کارکن یارہنماکوعدالتوں سےریلیف ملتاہےتونئےمقدمےمیں گرفتارکرلیتےہیں۔
ہم پراسیکیویشن کی جو یہ میلافائیڈپریکٹس ہےاس کوروکنےکی بات کرناچاہیں گے۔ ہماراسیدھاموقف ہے کہ سویلین کاملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوہی نہیں سکتا۔ ملٹری کورٹس سےجتنےلوگوں کوسزائیں ہوئیں کیاکسی کوپتہ ہے ان پرچارج کیاتھا۔
جن لوگوں کوسزائیں ہوئیں وہ ہائیکورٹ میں جائیں گے وہاں سےریلیف ملےگا۔ امریکاسےکچھ ٹویٹس ہوئےاوروہ ٹاک آف دی ٹاؤن بن گئے۔ جب آپ انسانی حقوق کوپامال کریں گےتوباہرسےبیان آئیں گے۔
ڈی چوک پرمعصوم اورنہتےشہریوں پرگولیاں نہ برساتے۔ آپ پارلیمنٹیرین کےچادراورچاردیواری کےتقدس کوپامال نہ کرتے۔ اگریہ سب کچھ نہ ہوتاتوکیسےممکن تھا کہ باہرسےکوئی ٹویٹ کرتا۔
پاکستان میں آپریشن رجیم چینج کےاندرجوبائیڈن کی حکومت ملوث تھی۔
بانی نےکہاہےٹرمپ حکومت ملک کےاندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریگی۔ اگرحکومت ہمارےمطالبات نہیں مانتی توہم احتجاج کی طرف واپس جائیں گے۔ عمران خان بہت جلد باہر آرہے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی آئینی وقانونی جنگ لڑ کر لیگل طریقے سے باہر آرہے ہیں۔ جو دو ڈھائی سال کی صورتحال تھی اب اس کے بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ انہیں بنی گالہ منتقلی کی پیشکش ہوئی تھی۔
بانی پی ٹی آئی ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کو پیشکش کس کی طرف سے آئی تھی۔ ہم سے پہلے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور نے بانی سے ملاقات کی۔ ہم سے ملاقات ہوئی تو بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ کہیں منتقل نہیں ہورہے۔ عمران خان نے کہا مطالبات پورے کردیں پھر میں غور کروں گا۔
مشترکہ اعلامیے میں بانی پی ٹی آئی لکھا گیا جس کو پوائنٹ آؤٹ کیا۔ ہماری ہی نشاندہی پر مشترکہ اعلامیے میں بانی پی ٹی آئی کا نام لکھا گیا۔ مذاکرا ت مذاکرات کا کھیل نظر آیا تو بانی پی ٹی آئی کو بتا دوں گابانی سے ملاقات کیلئے جاتے ہیں تو کاپی پنسل تو دور انگوٹھی تک اتار دی جاتی ہے۔ ملاقات کیلئے جانے کی چیکنگ الگ اور واپسی پر پہلے سے زیادہ سخت چیکنگ کی جاتی ہے۔
حکومت کی جانب سے کوئی ڈیمانڈ نہیں ۔
مزید پڑھیں :حکومت کےپاس اختیارہےنہ اپوزیشن کےپاس،مذاکرات ناکام ہونگے،شاہدخاقان