اسلام آباد ( اے بی این نیوز ) ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں ٹرائل اور اپیلٹ کورٹ نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے، اس وقت کی غیر معمولی سیاسی فضا میں دباؤ نے انصاف کے عمل کو متاثر کیا،یہ سب عدالتی آزادی کے نظریات سے متصادم تھا، آئینی طرز حکمرانی سے انحراف سیاسی مقدمات میں عدالتی کارروائیوں پر غیر ضروری اثر ڈالتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ ا ٓفریدی کا اضافی نوٹ جاری،کہا یہ ریفرنس شاید ہمارے سامنے نہ آتا مگر کچھ واقعات اس کا موجب بنے،جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے کچھ نکات کو ایڈریس کرنا ضروری ہے، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس صفدر شاہ نے جرات مندانہ اختلاف کیا، ان ججز کا اختلاف بھلے نتائج کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا مگر غیر جانبداری کے پائیدار اصولوں کا ثبوت ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں مزید لکھا مجھے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے نوٹس پڑھنے کا اتفاق ہوا،جسٹس منصور کے نوٹ سے ایک حد تک اتفاق کرتا ہوں،آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ صرف ایڈوائزری دائرہ اختیار رکھتی ہے،تاہم فیئر ٹرائل کے سوال پر فیصلے کے پیراگراف سے اتفاق کرتا ہوں۔
آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا،سپریم کورٹ نےرواں سال 6مارچ کو44 سال کی تاخیر کے بعد یہ تسلیم کرتے ہوئے ایک تاریخی غلطی کو درست کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا مقدمہ غیر منصفانہ تھا اور ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ عدالت کی جانب سے فئیر ٹرائل تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا
مزید پڑھیں :سست انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش پرپیپلز پارٹی نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا