اسلام آباد (اے بی این نیوز )کابینہ سے منظور شدہ مسودے میں میں دو درجن سے زائد ترامیم شامل ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی
کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے ۔
تجویز دی گئی کہ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تجویز ۔ مسودے میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز ۔
جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔ آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔
آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔ آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی۔ تجویز
چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی۔
چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔ آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔
ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ تجویز
وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔
کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔ دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔
مسودے میں آرٹیکل 38 میں ترمیم کی تجویز دی گئی۔ جس حد تک ممکن ہو سکے یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔ آرٹیکل 48 میں ترمیم تجویز ۔ وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔
مزید پڑھیں :حکومتی مسودے پرترمیم منظور ہوتی تو انتہائی خطرناک سانپ ثابت ہوتی،مولانا عطا الرحمان