نیویارک ( اے بی این نیوز ) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم25 اکتوبر کے بعدکی گئی توخدشہ ہے نہیں کرنے دی جائے گی۔مخصوص نشستوں کا فیصلہ یہی اشارہ کرتا ہے،25اکتوبر سے پہلے آئینی ترامیم ہوئیں تو 19ویں ترمیم جیسی مشکلات نہیں ہوں گی۔
موجودہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو تسلیم کیا ہے۔ میں آئینی ترمیم کے معاملے کو لیڈ کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا۔ مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے پی ٹی آئی کو ساتھ رکھا جائے۔
حکومت نے ہم سے پہلے ترمیم کا آئیڈیا عدلیہ سے شیئر کردیا۔ شاید اسی لیے اس بار آئینی ترمیم کا معاملہ خفیہ رکھا گیا۔ پی ٹی آئی کو عدلیہ میں خامیاں 2022کے بعد نظرآئیں۔ 90کی دہائی میں ہم وکیل کرتے تھے ن لیگ جج کرتی تھی۔ ایک شخص کیلئے ترمیم ہوتی تو تاحیات تعیناتی لکھ دیتے۔ آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا۔ ہم صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں چاہتے ہیں۔ کراچی بدامنی کیس کو برسوں سے زیرالتو رکھا گیا۔
بدامنی کیس کی بنیاد پر عدالت نے سندھ کا بلدیاتی نظام بدلہ۔ کیا بدامنی صرف کراچی میں ہے؟کے پی ،بلوچستان میں نہیں؟صحافی نےسوال کیا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل ہونا چاہیے؟ جس پر بلاول بھٹو نے جواب دیا کہ کس بات پھر؟ثبوت لے کرآئیں پھر دیکھیں گے۔ فکر نہ کریں معافی کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اختیار کا غلط استعمال کرے تو میں کم ازکم بول سکتا ہوں۔ عدلیہ کے غلط اختیار کے استعمال پر بولیں تو توہین عدالت لگ جاتی ہے۔ آئینی عدالت کے سربراہ جسٹس فائز عیسیٰ ہوں یاجسٹس منصور 3سال کیلئے ہوں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ پر یقین ہے وہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرتے۔
ہم نے بھی تو قومی اسمبلی کے اوپر سینیٹ رکھا ہے۔ افتخار چودھری کے دور میں عدلیہ حکومت کے اوپر حکومت بن گئی تھی۔
مزید پڑھیں :مشرق وسطیٰ کی آگ بھڑکی توپوری دنیاکولپیٹ میں لےگی،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ