اسلام آباد ( اے بی این نیوز ) نامور مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ انہوں نے ملک میں ایک بااثر مسلم اسکالر ہونے کی وجہ سے مودی حکومت کی بڑھتی ہوئی نفرت کی وجہ سے ہندوستان چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا ہے کہ انہوں نے بھارت میں جب بھی میں پروگرام کرتا تھا تو اس میں25 فیصد غیر مسلم شامل ہو تے تھے۔ غیر مسلم مجھے چاہنے لگے تھے اس وجہ سے بھارت کی حکومت کو تکلیف تھی۔
یکم جولائی دو ہزار سولہ میں ڈھاکہ میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں ایک گرفتار دہشتگردمیرا فیس بک پر فالور تھا جس کا بھارتی میڈیا نے یہ بیانیا بنایا کہ شاید دہشتگرد مجھ سے متاثر ہے۔ اس واقعہ کے بعد، انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی میڈیا، جسے وہ گوڈی میڈیا کہتے ہیں، نے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا اور یہ کہہ کر جھوٹا بیانیہ بنایا کہ “میں نے دہشت گرد کو متاثر کیا”۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بھارتی پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ ذاکر نائیک اور ان کی تنظیم کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے۔
اے بی این نیوز،ڈیلی اوصاف کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ نے بھی یہ بیان دیا کہ میری اس میں کسی صورت کو شمولیت نہیں .
لیکن بھارتی حکومت کا مقصد مجھے بھارت سے نکالنا تھا اس وجہ سے اس نے میرے خلاف بلا وجہ ایک محاذ کھڑا کیا پھر میرے خلاف ریڈ وارنٹ بھی جاری کئے گئے آخر کار ان تمام دگر گوں حالات کے پیش نظر مجھے بھارت کو چھوڑنا پڑ گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میری تنظیم، اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (IRF) پر 2016 میں جب میں عمرہ کر رہا تھا تو اس پر جعلی الزامات لگا کر پابندی لگا دی گئی۔ “انہوں نے مجھ پر منی لانڈرنگ اور کئی دیگر مقدمات درج کیے، اسی وقت میں نے پرواز کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان کے بجائے ملائیشیا چلا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بھارتی حکام نے بعد میں مجھ پر دہشت گردی کا الزام لگایا اور میری گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رجوع کیا، جسے ایجنسی نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ الزام سیاسی ہے۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ انہوں نے سیاسی پناہ کے لیے ملائیشیا کا انتخاب کیوں کیا، ڈاکٹر نائیک نے کہا کہ ملائیشیا جو کہ اکثریتی مسلم ملک ہے، ان مسلم ممالک میں سے ایک ہے جس کی مکمل خودمختاری ہے اور اس پر کسی بیرونی ملک کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں :پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، ذاکر نائیک،خصوصی انٹرویو آج رات 10 بجے صرف اے بی این نیوز پر