اسلام آباد ( اے بی این نیوز )پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت اور ارکان کی تعداد مکمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم پیش کرنے سے قبل حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان سمیت پانچ جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، لیکن جب مسودہ کمیٹی میں پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مولانا فضل الرحمان کو اس پر اختلاف تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم کے حوالے سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور جیسے ہی اتفاق رائے ہو جائے گا، چاہے وہ کل ہو یا پرسوں، ہم پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کریں گے۔
پی ٹی آئی سے مشاورت کے حوالے سے سوال پر بلاول نے وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ فی الحال وہ مولانا فضل الرحمان سے رابطے میں ہیں جو پی ٹی آئی سے بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئینی ترامیم پر بنائی گئی کمیٹی میں اگر پی ٹی آئی ارکان پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ یا نوید قمر سے رابطہ کریں گے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
پیپلزپارٹی کی جوڈیشل ریفارمز سے متعلق تجویز کوئی نئی بات نہیں۔ آئینی عدالت سے متعلق تجویز ہم نے 2006میں دی تھی۔ جوڈیشل ریفارمز سے متعلق ہمارا مسودہ پہلے کا تیار ہے ۔
ہم کافی عرصے سے عدالتی اصلاحات کیلئے سیاست کررہے ہیں۔ آئینی ترامیم پر حکومت نے چاہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی رائے لی جائے۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ مولانا اور حکومت کے مسودے میں کافی فرق تھا۔
آئینی اصلاحات پر ہم کافی عرصے سے کوشش کررہے ہیں ۔ دنیا کا ایک ملک بتائیں جہاں ججز ہی ججز کی تقرری کرتے ہوں ۔ دنیا کے باقی ممالک میں پارلیمنٹ ہی ججز کی تقرری کرتے ہیں۔
حکومت کی ناکامی نہیں کہوں گا لیکن حکومت آئینی ترامیم پیش نہ کرسکی ۔
کوشش تھی کہ پیپلزپارٹی کے مسودے پر مولانا فضل الرحمان کو راضی کرلیں ۔ آئین کے بانی کو تختہ دار پر لٹکایا گیا انصاف ملنے میں 50سال لگے۔ دنیا میں پارلیمنٹ سے کوئی نہیں پوچھتا کیونکہ عوامی حمایت ہوتی ہے ۔
جوڈیشری کے اندر بھی سیاست شروع ہوچکی ہے ۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی پر تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط ہے ۔ آئینی ترامیم کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔آئینی ترامیم کسی ایک شخص کیلئے نہیں نظام کی بہتری کیلئے کررہے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے جج ہیں جس نے اپنے اختیارات خود کم کیے۔ پی ٹی آئی کی ہمیشہ کوشش رہی کہ ہرآئینی عہدے کو متنازع بنایا جائے۔ دوتہائی اکثریت جیسے ہی مل جائے آئینی ترامیم لائیں گے۔ جوڈیشل ریفارمز پر وہ لوگ تبصرہ کررہے ہیں جس کا تجربہ نہیں ہوتا۔ بچپن سے پاکستان کے عدالتی نظام کو دیکھ کرآرہا ہوں۔
مزید پڑھیں :جسٹس منیب اختر کا سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ایک اور خط