اہم خبریں

اگر فضل الرحمان کو 6 نکات پر اعتراض ہے تو حکومت کو انہیں چھوڑ دینا چاہیے، رانا ثناء اللہ

اسلام آباد (اے بی این نیوز) وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں تو کوئی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار ہے، لیکن اگر تشریح میں تین دن کو نوے دن پڑھا جائے تو سوالات پیدا ہوں گے۔

انہوں نے آئینی شق 63-اے کے فیصلے کو ٹارگٹڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سے چوہدری پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ تبدیل ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے آئینی حدود سے تجاوز کیا گیا۔

پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے تابع نہیں ہے اور کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام ادارے عمل کرنے کے پابند ہیں، لیکن یہ آئینی حقائق کے برعکس ہے۔ انہوں نے 19ویں ترمیم کے حوالے سے بھی کہا کہ اسے ختم کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں تھا۔

مزید برآں، رانا ثناء اللہ نے سپریم کورٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار دینے پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ اس اختیار کا ماخذ کیا ہے؟ انہوں نے عدلیہ کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بھی تنقید کی اور کہا کہ عدلیہ سال کے تقریباً سات مہینے چھٹیوں پر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے، اور اس پر قوم اور وکلا برادری میں اتفاق رائے موجود ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئینی عدالت اور ججز کی تقرری کے معاملے پر تمام فریقین کا اتفاق ہے، اور آئینی ترمیم کے لیے جے یو آئی کے بغیر ان کے نمبرز پورے نہیں تھے۔ مولانا فضل الرحمان سے بات چیت نہ ہونے کے باوجود، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر فضل الرحمان کو 6 نکات پر اعتراض ہے تو حکومت کو انہیں چھوڑ دینا چاہیے اور باقی چار نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں :پی ٹی آئی کا کل بھر پور احتجاج، عہدیداران کو ٹاسک سونپ دئیے گئے، کمیٹیاں تشکیل

متعلقہ خبریں