اسلام آباد(اے بی این نیوز )سپریم کورٹ ، پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کا معاملہ۔ ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ثمینہ ملک وہیل چیئر پر سپریم کورٹ میں پیش ہو گئیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس اور وکیل اسلامک یونیورسٹی ریحان الدین گولڑہ کے درمیان تلخ کلامی ہو ئی۔ وکیل اسلامی یونیورسٹی نے کہا کہ
آپ نے الزام لگایا تھا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ جعلی ہے۔ ڈاکٹر ثمینہ کی حالت دیکھ لیں میڈیکل سرٹیفکیٹ کیسے جعلی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ اور دوسری دستاویز میں نام مختلف ہونگے تو شک ہوگا ہی۔
ایچ ای سی کہتا ہے ثمینہ ملک کو جب بھی میٹنگ کا کہیں بیماری کا بہانہ بنا لیتی ہیں۔ وکیل اسلامی یونیورسٹی نے کہا کہ صرف ایک میٹنگ میں شرکت نہیں کی، دیگر میں آن لائن شرکت کی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ
کیا ایچ ای سی کا دفتر کسی دوسرے شہر میں ہے جو آن لائن شرکت کرتی تھیں؟ یونیورسٹی میں کتنی آسامیاں خالی ہیں اس کا جواب دیں۔ وکیل نے کہا کہہ آپ نے یونیورسٹی بورڈ اجلاس میں بطور رکن بھی یہ سوال پوچھا تھا،
وہاں بھی جواب دیا تھا آج عدالت میں بھی وہی جواب دے دیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم خاموش ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بدتمیزی کریں۔ چیف جسٹسنے پولیس کو ہدایت وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹایا جائے۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے وکیل ریحان گولڑہ کو روسٹم سے ہٹا دیا ۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ثمینہ میڈیا کے قریب کیا کر رہی ہیں انہیں یہاں بلائیں؟ چیف جسٹس کا ثمینہ ملک سے سوال کہ
آپ اجلاسوں میں شرکت کیوں نہیں کرتیں۔ ثمینہ ملک نے بتا یا کہ میں دوائی کے اثر میں ہوں کچھ وقت دیں سوالات کے جواب دے دوں گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ
آپ نے ڈرامہ کرنا ہے تو یہاں سے چلی جائیں۔
چیف جسٹس نے ثمینہ ملک کو کمرہ عدالت سے جانے کی ہدایت کر دی۔ اسلامک یونیورسٹی کے وکیل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کر دیا ۔ آپ نے بطور بورڈ رکن اجلاس میں یہ سارے سوالات پوچھے تھے۔
آپ بورڈ کے رکن بھی ہیں اس لئے مناسب ہوگا یہ کیس نہ سنیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق چیف جسٹس یا اس کا نمائندہ کئی جامعات کے بورڈ کا رکن ہوتا ہے۔
جب معلومات نہ دینی ہوں تو اعتراض کر دیا جاتا ہے۔
میرے کسی اہلخانہ کی ڈگری کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اعتراض بجا ہوتا۔ آپ نے کرائے کے جو لوگ رکھے ہیں پروپیگنڈہ کیلئے اس کو بھی دیکھیں گے آج۔ ثمینہ ملک کی کمرہ عدالت سے روانگی کیساتھ صحافی بھی کمرہ عدالت سے باہر آنے پر چیف جسٹس برہم ہو گئے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ
تین چار کرائے کے صحافی جا کر گالیاں دینا شروع کر دیں گے۔ گالم کلوچ کرو تو سب ٹھیک ہے۔ سب سے آسان کام چیف جسٹس کو گالیاں دینا ہے۔ میں نے صرف ایک سوموٹو نوٹس لیا تھا وہ بھی کسی کے کہنے پر لیا تھا۔
کیا ہم پھر توہین عدالت کا نوٹس لے کر جیل بھیجنا شروع کر دیں؟ پورے پاکستان میں ایک ہی خاتون ملی ہے جو ہر وقت بیمار رہتی ہے؟ لوگوں کو میڈیا پر ہائیر کرکے گالم کلوچ شروع کر دی جائے گی۔
باہر کے ممالک بھی اسلامک یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں۔ اگر ریکٹر بیمار ہیں کام نہیں کر سکتیں تو عہدہ چھوڑ دیں۔
مزید پڑھیں :پنجاب حکومت ، تحریکِ انصاف کو لاہور جلسہ کی اجازت دینے کا فیصلہ