اسلام آباد ( اے بی این نیوز )چیئرمین پیپلز پارٹی بلا ول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم ایسا قانون نہیں بنائیں گے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت کرےگا۔ ہم ایسا قانون بنائیں گے جس سے عوام کو فائدہ ہواور فوری انصاف ملے۔
میں نے کہا تھا آئینی عدالت ہو یا سپریم کورٹ منصورعلی شاہ چیف جسٹس ہوں گے۔ کسی شخص کیلئے قانون سازی ہورہی ہو تو اسی کو رولا کہتے ہیں۔ حکومت نے عدالتی ریفارمز اور آئینی عدالت کی بات کی تو کیا میں انکار کردوں ۔
افتخار چودھری ہوں ،گلزار یا ثاقب نثار ہوں انہوں نے عدلیہ کو سیاست زدہ کیا ہے۔ کبھی یہ ٹماٹر کی قیمتیں طے کرنے نکل جاتے ہیں تو کبھی ڈیمز بنانے نکل جاتے ہیں۔ میں اس لیے حکومت میں نہیں کہ کبھی کسی ایک جج کو تو کبھی کسی دوسرے جج کی تعریف کروں۔
جسٹس قاضی فائز ،جسٹس منصور علی شاہ کا مشکور ہوں کہ مجھے 50سال بعد انصاف دیا گیا۔ میں وزیر اعظم ،وزیر قانون نہیں جو آئینی عدالتوں کے ججز مقرر کروں گا۔ آئین سازی اور قانون سازی کا عمل ہے اور پارلیمنٹیرینز کا حق ہے کہ کیسے ججز کو منتخب کرنا ہے۔
پیپلزپارٹی کے منشور میں چارٹر آف ڈیموکریسی ہے جس کے مطابق ہی چلیں گے۔ ہمارا تاریخی مطالبہ مانا گیا ہے انشااللہ اس پر عمل ہوگا اور عوام کو فائدہ ہوگا۔ عدم اعتماد کے طریقہ کار کو بھی عدالتوں نے اپنا لیا۔ عدلیہ کو پاکستان کے ہر ادارے میں مداخلت کا اختیار ہے ،ان کی مرضی۔
63اے پر بھی عدلیہ نے پارلیمان کی قانون سازی اٹھا کر پھینک دی۔ ایسے قانون کے حق میں نہیں جو کسی فرد کو پروموٹ کرے یا دھچکا لگائے۔ ہم اس تفصیلی فیصلے کا آج تک انتظار کررہے ہیں جس کی بنیاد پر ہم نے 19ویں ترمیم منظور کرائی۔
کامران مرتضیٰ لیگل معاملات سمجھتے ہیں وہ بھی آگاہی دے سکتے ہیں۔ آرٹیکل 8میں فرد کا ذکر تھا،وابستگی کا ذکر تھا ،دنیا بھر کے قانون کا حوالہ تھا۔ میں نے سمجھا کہ ترمیم میں ایکٹیو ڈیوٹی کا پروٹیکشن ڈالیں تاکہ شہری کو تحفظ ملے۔
کامران مرتضیٰ کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا جس کو قبول کیا ،مخالفت نہیں کی۔ میں نے درمیانی راستہ اپنایا جس سے مسئلے کو حل کرسکتے تھے۔ آرٹیکل 8میں حکومت کا جو پروپوزل تھا اس پر کامران مرتضیٰ نے اعتراض کیا۔
آرٹیکل 51میں ترمیم کو بھی اعتراضات پر نکلوا دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں طے کیا تھا کہ 2دن میں بیٹھ کر بات کرینگے۔ جے یوآئی سنجیدہ ہے تو 2دن کا وقت طے ہوا تھا مرتضیٰ وہاب سے بات کرلیں۔
کامران مرتضیٰ ٹی وی کیلئے وقت نکال سکتے ہیں تو وقت نکال کر مرتضیٰ وہاب سے بھی بات کرلیں۔ آئین کی حفاظت کیلئے جے یو آئی (ف) کا اتنا ہی کردار ہے جتنا پیپلزپارٹی کاہے۔ کامران مرتضیٰ کا ماضی مجھے معلوم نہیں ہے۔میرے خیال سے کوئی مس کمیونی کیشن ہوئی ہے۔
کامران صاحب مرتضیٰ وہاب سے فون پر بات کرلیتے تو مس کمیونی کیشن نہ ہوتی۔ نہ کوئی مجبوری تھی نہ کوئی ڈر تھا نہ کوئی خوف تھا۔ ہم خوف کی سیاست کرتے ہیں نہ مجبوری کی۔
مولانا فضل الرحمان نے بھی بلا خوف سیاست کی ہے۔
میں جس پوائنٹ پر پہنچا اس کے بعد کامران مرتضیٰ بات کرنا شروع کرتے پہلے نہیں۔ میں وکیل نہیں ہوں لیکن جن پوائنٹس کو سمجھا اس پر بات کی۔
مزید پڑھیں :جو مرضی ہو جائے قوم لاہور کے جلسے کے لیے نکلے،21 ستمبر کو روکا گیا تو جیلیں بھر دیں گے،عمران خان