اسلام آباد( اے بی این نیوز )سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کیلئے ازخود نوٹس سماعت کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 29 جولائی کو سماعت کرےگا۔ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بنچ کا حصہ ہیں ۔
اٹارنی جنرل، سیکرٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ 24 اکتوبر 2022 کو کینیا کے شہر نیروبی میں مگاڈی ہائی وے پر شناخت میں غلطی پر پولیس نے ارشد شریف کو سر پر گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ ارشد شریف کی میت پاکستان لائے جانے کے بعد پمز اسپتال کے 8 رکنی میڈیکل بورڈ نے ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے، ان کو گولی انتہائی قریب سے ماری گئی تھی۔
پمز ذرائع کے مطابق ارشد شریف کا کینیا میں بھی پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا جس کی وجہ سے موت کے وقت پہنے کپڑے ساتھ نہیں دیے گئے۔ ارشد شریف کون تھے۔ ارشد شریف کی عمر 49 برس تھی اور ان کا تعلق ایک فوجی خاندان سے تھا۔ ارشد شریف کے والد محمد شریف پاکستان نیوی میں کمانڈر تھے۔
ارشد 1973 میں کراچی میں پیدا ہوئے اور 1993 میں صحافتی کیرئیر شروع کیا۔ وہ پہلے انگریزی اخبارات اور پھر مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے۔ تاہم ان کی ایک اہم پہچان اے آر وائی نیوز کا پروگرام پاور پلے بنا۔ 2012 میں انہوں نے آگاہی ایوارڈ جیتا۔
ان کے ایک بھائی اشرف شریف پاکستان فوج میں میجر تھے۔ 2011 میں ارشد شریف کے والد کا انتقال ہوا تو وہ بنوں میں تعینات تھے وہاں سے راولپنڈی جاتے ہوئے کار حادثے میں اشرف شریف جاں بحق ہوگئے۔
ارشد شریف حالیہ چند ماہ میں خبروں میں اس وقت آئے جب 13اگست کو پولیس نے ارشد شریف سمیت اے آر وائی کے صحافیوں اور سی ای او کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
یہ مقدمہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی جانب سے اس ٹی وی چینل پر دیئے گئے ایک بیان کے بعد درج ہوا تھا اور گل پر مسلح افواج کے اراکین کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
مقدمے کے اندراج کے بعد ارشد شریف نے پاکستان چھوڑ دیا اگرچہ دیگر صحافی ملک میں ہی رہے۔اس کے کچھ ہی دن بعد ارشد شریف کے بیانات کے ردعمل میں اے آر وائی نے اعلان کیا کہ چینل ان کے ساتھ اپنی 8 سالہ رفاقت ختم کر رہا ہے۔
اگست میں پاکستان چھوڑنے کے بعد ارشد شریف لندن میں دیکھے گئے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ وہ کینیا کے شہر نیروبی کیوں گئے تھے۔
مزید پڑھیں :فوجی عدالتوں میں عمران خان کی ممکنہ نظر بندی کے خلاف درخواست دائر