اسلام آباد ( اے بی این نیوز )جسٹس اطہر من اللہ نےکہا کہ 9اپریل کی رات عدالت کھولنے کی وجہ یہ تھی کہ مارشل لاء باتیں کی جارہی تھیں۔ ایسی صورت حال ہو تو تمام عدالتوں کو رات کو کھل جانا چاہیے۔
جن 6ججز نے خط لکھا ان میں سے 5میں نے ڈھونڈ کر لگائے تھے۔ میموگیٹ کیس ایسا نہیں تھا جو سپریم کورٹ کو لینا چاہیے تھا۔ ایگزیکٹو کے ڈومین پر سپریم کورٹ کی جانب سے تجاوز کیا گیا۔
ہمارے ایک سفیر کو سپریم کورٹ نے غدار قرار دے دیا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو اس کے عہدے سے نااہل قرار دیا گیا۔ بیوی اور بچوں کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر لیک کی گئیں۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ جب بھی مارشل لا کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہیں۔
نیویارک بار سے خطاب کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ میں اس ٹی وی چینل کا نام نہیں لینا چاہتا جس نے ایسا ماحول بنایا جیسے مارشل لا لگنے والا ہو۔ کاش 5 جولائی کو عدالتیں کھلتی جب ضیاء نے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا، کاش 12 اکتوبر 1999 کو جب مشرف نے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا تو عدالتیں کھلی ہوتیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی ہوتی تو یہ بھی امتحان ہوتا، یہ امتحان اسلام آباد ہائی کورٹ کا ہوتا کہ وہ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہوتی ہیں یا نہیں۔
انہوںنے کہا کہ جب میں نے نوٹ لکھا تو میرے دونوں بیٹوں کا ذاتی ڈیٹا سوشل میڈیا پر ڈالا، وہ ڈیٹا سرکاری ادارے سے حاصل کیا گیا تھا۔
میری اہلیہ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ڈاکومنٹری بنا کر حملہ کیا گیا، یہ جج کا امتحان ہے، ججز کی آزادی کا امتحان ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ 2022 تک میرے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے وہ اچانک بدل گئے، آج وہی پروپیگنڈا کر رہے ہیں جنہوں نے اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کا فائدہ اٹھایا، اس وقت ملک کی کوئی ہائی کورٹ انہیں ریلیف نہیں دے رہی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جج کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے، جس سے جج اور عدالت پر عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔
مزید پڑھیں :لیسکو اوور بلنگ تحقیقات،بجلی کے بلوں پر میٹر ریڈنگ کی تاریخیں شائع کرنا شروع کردیں