اہم خبریں

آپ کسی کو گاڑی میں ڈال کے لے جاتے ہیں گرفتاری نہیں ڈالتے ، یہ پولیس اسٹیٹ بن گئی ہے جو دل چاہتا ہے کر لیتے ہیں ،چیف جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد (  اے بی این نیوز    )پی ٹی آئی سیکرٹریٹ پر چھاپے کے دوران گرفتار کارکنوں، خواتین اور ملازمین کی بازیابی کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی میمونہ کمال کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈی آئی جی آپریشنز اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائمز اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو ئے۔

درخواست گزار میمونہ کمال کے وکیل سید علی بخاری بھی عدالت میں موجود تھے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتا یا کہ مقدمہ درج ہوچکاہے،کچھ گرفتار ہیں،کچھ رہتے ہیں،دو خواتین اور نو مرد گرفتار ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جن خواتین کے نام ہیں ان میں سے کسی کو اٹھایاہے، کن کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 6 خواتین کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑا گیا ہے۔ عدالتنے علی بخاری سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کن کو اٹھایا گیا اور کسے چھوڑا گیا۔ علی بخاری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ
یہ جن کو چھوڑا صبح کہیں چھوڑا ہے دو خواتین ابھی تک لاپتہ ہیں۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مردوں میں سے کون کون گرفتار ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے گرفتار افراد کے نام عدالت کو بتائے۔ انہوں نے25 افراد کی فہرست دی،10 خواتین اور 15 مرد ہیں۔

عدالتنے استفساراقراء اور فرحت سے متعلق کیا ہے۔ آپ کی فہرست کے مطابق گرفتار4 کی کیا پوزیشن ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دو روز کے ریمانڈ پر ہیں،عدالت سے ریمانڈ منظور ہواہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ کہتے ہیں ذاتی مچلکے پر چھوڑا، آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے۔جو تین چار بندے گنتی میں نہیں میرا تعلق ان سے ہے۔ درخواست یہ تھی کہ پولیس اور ایف آئی اے نے کارکنوں کو اغواء کیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہمقدمہ میں نامزد لوگ گرفتار ہیں باقی سب کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا۔ اِس مقدمہ میں 10 مرد اور دو خواتین شامل ہیں۔ چھ خواتین میں سے کوئی بھی گرفتار نہیں ہے، سب کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا۔

وکیل درخواست گزار علی بخاری نے بتای کہ کُل دس خواتین کے نام لکھے ہیں جنہیں اٹھایا گیا تھا۔ دو خواتین پر مقدمہ کا کہا جا رہا ہے اسکے علاوہ بھی دو خواتین کا ہمیں ابھی تک نہیں پتہ۔
دو باقی خواتین سے متعلق بھی پتہ چلا ہے کہ وہ بھی واپس آ گئی ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر خواتین والا معاملہ تو واضح ہو گیا۔ ایف آئی اے حکام نے بتا یا کہ مقدمہ کے علاوہ مرد کارکنوں کو بھی ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا ہے،
وکیل علی بخاری نے بتایا کہ تین چار لوگوں سے متعلق ہمیں کچھ معلوم نہیں، ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔

چیف جسٹس نے ایف آئی اے حکام سے استفسارکیا کہ مرد کارکنوں کو ذاتی مچلکہ پر چھوڑنے کا کوئی ثبوت ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح تو آپ کسی کو سڑک پر چلتے گاڑی چلاتے بھی اٹھا لیں گے۔ کوئی عدالت آپ کو نہیں روکے گی لیکن کسی ڈھنگ سے تو کام کریں۔

آپ نے 32 لوگ گرفتار کئے کیا 32 کی گرفتاری ڈالی گرفتاری نہیں ڈالی تو بندہ کیسے اٹھا سکتے ہیں ۔ کیا بغیر وارنٹ کے بندہ اٹھا لیتے ہیں اگر گرفتاری نہیں ڈالی تو کس حیثیت میں 8 10 گھنٹے رکھا۔
مجھے قانون بتائیں مجھے قانون نہیں آتا کس قانون کے تحت بندہ اٹھا کر لے جائیں 4 گھنٹے بعد چھوڑ دیں ۔

چیف جسٹس کا بار بار ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے استفسار۔ مجھے ان افراد کا سٹیٹس بتائیں جو بندے اٹھائے گئے بعد میں چھوڑ دئیے ۔یہ پاکستانی شہری ہیں کسی کو بھی آپ شک کی بنیاد پر اٹھا لیں گے ۔

آپ کسی کو گاڑی میں ڈال کے لے جاتے ہیں گرفتاری نہیں ڈالتے یہ کس قانون کے تحت ہے۔وکیل علی بحاری نے کہا کہ دس بج کر چالیس منٹ پر ایف آئی آر درج ہوئی ملزمان میں اکثریت ملازم ہیں جو تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ عدالت کے سامنے اعتراف کیا گیا کہ 25 بندے اٹھائے ایف آئی آر میں تو 12 نامزد ہیں۔

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے کہنے پر بھی عورتیں نہیں چھوڑی گئیں ۔ایف آئی اے نے گرفتاری کے لیے پولیس سے معاونت لی اگر لی تو کس قانون کے تحت ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ
ایف آئی اے نے لیٹر لکھ کر معاونت طلب کی ۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مجھے وہ لیٹر دیکھا دیں جس میں معاونت مانگی۔ آپ نے لوگوں کو اٹھا کر دس گھنٹے بعد چھوڑ دیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مقدمہ میں نامعلوم لوگ بھی تھے اس لیے دیگر لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کس قانون کے تحت اس طرح کسی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کسی ثبوت کے بغیر کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی سیکرٹریٹ میں بیٹھے تمام لوگوں کو گرفتار کیا جانا لازم تھا؟

کیا اُس دفتر میں موجود ہونا کوئی جرم ہے؟ اگر علی بخاری ایڈووکیٹ وہاں موجود ہوتے تو انہیں بھی گرفتار کر لیا جاتا؟ علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پارٹی سیکرٹریٹ سے واٹر ڈسپنسر بھی اٹھا کر لے گئے۔

چیف جسٹس عامر فاروق کا استفسار کہ پانی پینا تھا؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ 32 لوگوں کو وہاں سے اٹھا لیا گیا، کیا آپکو وہ سب مطلوب تھے؟ آپ نے کسی کو گرفتار کرنا ہے تو شک کی بنیاد پر گرفتار کرنا ہے۔
آپ نے صرف وہاں موجودگی کی بنیاد پر گرفتار کر لیا؟ یہ تو اسکی بدقسمتی ہے۔

سیکرٹریٹ کے باہر کوئی شخص کسی کا انتظار کر رہا ہوتا تو اسے بھی گرفتار کر لیتے؟ ۔کیا تمام 32 لوگوں کی گرفتاری ڈالی گئی تھی؟ ادھر اُدھر کی بات نہ کریں، سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، بلڈپریشر کیوں ہائی کر رہے ہیں؟ اگر گرفتاری نہیں ڈالی تو 32 لوگوں کو دس گھنٹے کیسے وہاں رکھا؟

آپ نے دس گھنٹے کیلئے اُنہیں وہاں کیسے رکھا یہ اغواء نہیں ہے؟ میں اپنی عدالت کے دروازے بند کر دوں اور کسی آرڈر کے بغیر آپکو باہر نہ جانے دوں یہ اغواء نہیں ہے؟
اٹھائے گئے تمام لوگوں کو غیرقانونی حراست میں رکھا گیا نا؟

اگر غیرقانونی حراست میں رکھا گیا تو پھر اسکے کیا نتائج ہونگے؟ کل میں سڑک پر جا رہا ہوں تو پولیس مجھے بھی اٹھا کر لے جائے گی؟ آپ نے 32 لوگوں کے موبائل کیسے اپنے پاس رکھ لئے اگر وہ گرفتار نہیں تو ان کی چیزیں کیسے رکھ سکتے ہیں ۔

ایک شخص کو چھوڑ دیا اس کا موبائل رکھ لیا بتائیں کس قانون کے تحت اور کیوں موبائل رکھے ۔ عدالت نے موبائل فون واپس کرنے کا حکم دے دیا جو لوگ گرفتار نہیں ان کے فون واپس کریں ۔

آپ کی ناک تلے یہ سب ہو رہا ڈی جی کون ہے آپ کا چیف جسٹس عامر فاروق کا اے ڈی ایف آئی اے سے استفسار ،انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ

ہم کہتے ہیں یہ پولیس سٹیٹ بن گئی ہے کوئی قائدہ قانون نہیں ہے کہیں سے قانون پڑھ لیں داخلہ لیں۔ اگر کسی وکیل نے ایسا مشورہ دیا تو بتائیں میں اس کا لائسنس معطل کروا دوں گا ۔
موبائل فون واپس کریں ورنہ میں چوری کا پرچہ کروا دوں۔

آپکو پتہ ہے کسی کی پراپرٹی اپنے پاس رکھ لینا چوری ہے؟ جن لوگوں کی جو چیزیں ہیں اُن کو واپس کریں۔کوئی قاعدہ قانون دیکھیں، کیا آپکو قانون کا پتہ نہیں ہے؟
اب معاملہ میرے سامنے آ گیا تو اِس پر کچھ آرڈر تو لکھوں گا نا۔

پولیس اور ایف آئی اے کی تعریف تو کرنے سے رہا کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ پولیس اسٹیٹ بن گئی ہے جو دل چاہتا ہے کر لیتے ہیں۔ پولیس اسٹیٹ یہی ہوتی ہے نا کہ کوئی کام قانون قاعدے کے تحت نہ کریں۔

کیا میں لکھوا دوں کہ چوری کا مقدمہ درج کروا دیا جائے؟ جو عدالتی فیصلوں کے حوالے دینے ہیں دیدیں، میں آرڈر لکھوں گا۔بغیر ایف آئی آر حبسِ بے جا میں رکھنے کے معاملے پر آرڈر کروں گا۔
عدالتی فیصلوں کے حوالے بعد میں عدالت میں جمع کروا دیں۔

مزید پڑھیں :ملک کوگالی دینےوالوں کےساتھ آہنی ہاتھوں سےنمٹاجائےگا، دانیال چودھری

متعلقہ خبریں