اسلام آباد(اے بی این نیوز )سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست کی سپریم کورٹ میں سماعت ہو ئی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے ہے، غلطی کو درست کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔
اس مو قع پر سنی اتحاد کونسل، الیکشن کمیشن کے وکلا اور اٹارنی جنرل نے اپنے اپنے دلائل دیئے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہو ئے کہا کہ 2002 اور 2018 میں مخصوص نشستوں سے متعلق ریکارڈ موجود ہے۔، مخصوص نشستوں سے متعلق آرٹیکل 51 کا نفاذ 2002 میں ہوا، 272 نشستیں مکمل تھیں، 3 میں انتخابات ملتوی ہوئے۔ جن میں سے 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے۔ 9 امیدواروں نے سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد 256 نشستوں کے لیے مخصوص نشستوں کے فارمولے پر عمل کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید نے کہا کہ 2002 کے انتخابات میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے تاہم مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اسمبلیوں میں آرٹیکل 51 کا مقصد خواتین اور اقلیتوں کو نمائندگی دینا ہے، سیاسی جماعت میں شامل ہونے والے آزاد امیدوار کو پارٹی کا رکن تصور کیا جاتا ہے۔
ان دلائل پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 51 سیاسی جماعت کا حق ہے۔ ، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو نکال دیا۔ جو ایک اہم سوال ہے، کیا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اس کو دیکھے۔ قانون کی خلاف ورزی؟ ووٹروں نے سیاسی جماعت کو ووٹ دیا ہے ۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے خود کہا کہ اگر زیادہ آزاد امیدوار ہوں گے تو کچھ غیر معمولی صورتحال ہوگی۔ موجودہ حالات میں آزاد امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کیسے آئے؟ کیا الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اتنے آزاد امیدوار بنائے؟ موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں سے پیدا ہوا، سپریم کورٹ کا کام نہیں کہ وہ غلطی کو دور کرے، کیا وہ کوئی قانونی آپشن نہ اختیار کرے جس سے غلطی درست ہو جائے۔
اس دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئےکہ کیا کسی جماعت نے کہا کہ سیٹیں خالی رہیں گی؟ ہر جماعت کہتی ہے کہ سیٹیں ہمیں دیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا، فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو سیٹیں نہیں ملیں تو خالی چھوڑ دیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا آپ کے مطابق سنی اتحاد کونسل ضمنی الیکشن جیت کر پارلیمانی پارٹی بن گئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ضمنی انتخابات میں سنی اتحاد جیت گیا تو پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت نہیں مانتا تو یہ پارلیمانی پارٹی کیسے بن سکتی ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتا ہے تو وہ پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت انصاف کے تقاضے نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے۔ ضرورت کا نظریہ تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا تذکرہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی من مانی تشریح کی جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا عدالت آئین کی سنگین خلاف ورزی کی تصدیق کرے؟ کیا کمرے میں موجود ہاتھی کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ کوئی آئینی ادارہ غیر آئینی اور سپریم کورٹ اس کی تصدیق کرے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہوتے ہیں، ہر فیصلہ آئین کے مطابق ہوا، کچھ جج صاحبان عقلمند ضرور ہوں، میں اتنا عقلمند نہیں ہوں، پاکستان کو ایک بار کے لیے آئین کے راستے پر چلنے دیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی گئی۔
مزید پڑھیں :یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے سارا ملک جھوٹ پر چل رہا ہے،پی ٹی آئی میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں،عمران خان