لندن ( نیوزڈیسک) متنازع یوٹیوبر عادل راجہ برطانوی عدالت میں بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے خلاف ہتک عزت کیس میں اپیلیں ہار گیا۔عادل راجہ اپنے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست میں ناکام رہا۔برطانوی عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ عادل راجہ درخواست گزار کو درخواستوں ، حکم امتناع اور سیکیورٹی اخراجات کی مد میں ادائیگی کرے۔عدالت کے مطابق عادل راجہ نے بریگیڈیئر ریٹائرڈ راشد نصیر کی ایکس، فیس بک اور یوٹیوب سمیت 9 پبلیکشنز میں ہتک کی۔
مزید پڑھیں: عید کے دوران مری میں 55 ہزار سے زائد گاڑیاں داخل
برطانوی ہائی کورٹ کے جج نے متنازع یو ٹیوبر کی تمام درخواستیں مسترد کردیں۔ڈپٹی ہائیکورٹ جج رچرڈ اسپیرمین نے حکم دیا کہ عادل راجہ درخواست گزار کو 5 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کریں جبکہ عدالت نے جرمانے کی ادائیگی کیلئے 17 اپریل 2024 تک کا وقت دے دیا۔عادل راجہ اپنے وکیل اور پی ٹی آئی برطانیہ کے رہنما مہتاب انور عزیز کے ہمراہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش ہوا۔عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ عادل راجہ کے بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کیخلاف تمام الزامات بے بنیاد اور غلط ہیں، عادل راجہ کو اب اپنے تمام الزامات کو سچ ثابت کرنے کے لئے عدالت میں شواہد پیش کرنا ہوں گے۔
عادل راجہ کی درخواست گزار سے سیکیورٹی کی مد میں ڈھائی لاکھ پاؤنڈ لینے کی استدعا بھی مسترد کردی گئی جبکہ گواہوں کو خفیہ رکھنے کی استدعا بھی مسترد ہوگئی۔عادل راجہ نے جون 2022 کو ٹویٹر ، یوٹیوب اور فیس بک ویڈیوز کے ذریعے پاک فوج کے افسر کیخلاف مہم شروع کی۔متنازعہ یوٹیوبرمیجر (ر) عادل راجہ کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب برطانوی ہائیکورٹ کے جج نے ان کی تمام درخواستیں مسترد کر دیں جس میں ان کے خلاف جاری ہتک عزت کے مقدمے کی سماعت روکنے کی درخواست بھی شامل ہے۔
سینئر فوجی افسر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے حق میںجج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عادل راجہ نے سوشل میڈیا سائٹس یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر/X پر راشد نصیر کیخلاف شدید ہتک آمیز الفاظ کا استعمال کئے۔ڈپٹی ہائیکورٹ کے جج مسٹر رچرڈ سپیئرمین کے سی نے فیصلہ دیا کہ عادل فاروق راجہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو 10ہزار پاؤنڈ ادا کریں اور عادل راجہ کو اخراجات کی مد میں مزید عبوری ادائیگی کا بھی حکم دیدیا۔ برطانوی عدالت نے مدعا علیہ عادل راجہ کو رقم ادا کرنے کیلئے 17 اپریل 2024 تک کا وقت دےد یا ۔
اپنے وکیل اور پی ٹی آئی برطانیہ کے رہنما مہتاب انور عزیز کی مدد سے جو پی ٹی آئی کارکن شایان علی کی بھی نمائندگی کرتے ہیں، عادل راجہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے اور دلیل دی کہ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے کیس کو متعدد بنیادوں پر روکا جانا چاہیے۔ لیکن عدالت نے ان کے تمام دلائل کو مسترد کر دیئے جس میں یہ الزامات شامل تھے کہ پاکستان ایک آمرانہ ریاست ہے جس میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدلیہ اور حکومت کو کنٹرول کرتی ہے اور پاکستان میں انتخابی دھاندلی کے الزامات شامل ہیں۔
ہائیکورٹ کے جج نے فیصلہ دیا کہ عادل راجہ کی شائع کردہ 10 میں سے 9 اشاعتیں کامن لاء میں بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے خلاف ہتک آمیز تھیں اور رائے کے اظہار کے بجائے متعصبانہ سوچ پر مبنی تھیں۔۔ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کا نام اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب سابق وزیراعظم عمران خان نے انہیں بے بنیاد اور بے بنیاد الزامات لگانے میں مسٹر ایکس کا نام دیا تھا –
خان اور ان کی پارٹی ان الزامات سے پیچھے ہٹ گئی اور کسی بھی فورم پر ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ ڈپٹی ہائی کورٹ کے جج مسٹر رچرڈ سپیئرمین کے سی نے فیصلہ دیا کہ بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کو یو کے کامن لاء میں بدنام کیا گیا جب عادل فاروق راجہ نے جون 2022 کی اشاعتوں میں بغیر کسی ثبوت کے، درج ذیل الزامات لگائے:
(1) انتخابات جس طرح آگے بڑھنے چاہییں نہیں اس کی وجوہات یہ تھیں کہ بریگیڈیئر راشد نصیر نے لاہور ہائی کورٹ کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
(2) بریگیڈیئر راشد نصیر نے مبینہ طور پر اپنے قیام کے دوران آصف علی زرداری سے انتخابی جوڑ توڑ پر بات کرنے کیلئے کئی ملاقاتیں کیں۔
(3) بریگیڈیئر راشد نصیر نے لاہور کے سیکٹر ہیڈ کوارٹر میں ایک الیکشن سیل قائم کیا جس کا کام پی ڈی ایم اور پی ایم ایل این کے امیدواروں کی روزانہ کی پیش رفت کی رپورٹس جمع کرنا، مقامی اثرورسوخ کو طلب کرنا اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالنا اور رشوت دینا ہے
(4) بریگیڈیئر راشد نصیر پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے لیے ملٹری اور انٹیلی جنس افسران کی طرف سے ترتیب دیئے گئے ایک پیچیدہ عمل کا حصہ ہیں۔
(5) بریگیڈیئر راشد نصیر اپنے عہدے کا غلط استعمال کر رہے ہیں، PDM اور PMLN کی جیت کو یقینی بنانے کیلئے بھاری بے حساب فنڈز استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں انتخابات میں جوڑ توڑ کر رہے ہیں۔
(6) بریگیڈیئر راشد نصیر پی ٹی آئی الیکشن کے دوران پی ٹی آئی کے حامیوں کو ہراساں کرنے کیلئے پولیس اور ڈولفن فورس کا استعمال کرتے ہوئے اپنے عہدے اور طاقت کا غلط استعمال کرتے رہےہیں۔
(7) بریگیڈیئر راشد نصیر نے گناہ کیا اور صرف ایک شخص کی خدمت کرنے کیلئے آخرت کی زندگی کے اپنے امکانات کو ختم کر دیا ۔
(8) بریگیڈیئر راشد نصیر نے عادل راجہ پر رشوت ستانی کا بے بنیاد الزام لگا کر پولیس کو اپنی من مانی کرنے پر مجبور کیا تھا۔
(9) بریگیڈیئر راشد نصیر براہ راست سیاسی مداخلت میں ملوث ہیں۔
(10) بریگیڈیئر راشد نصیر نے عادل راجہ کو بدنام کرنے اور اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے سے روکنےکیلئے اس کیخلاف شکایت درج کروائی کیونکہ عادل راجہ نے انتخابات میں دھاندلی کے اپنے منصوبوں کا پردہ فاش کیا تھا اور اس طرح لاہور کا ایک دھوکہ باز بریگیڈیئر راشد نصیر چلاتا ہے۔
(11) بریگیڈیئر راشد نصیر کی ہدایت پر عادل راجہ کے خلاف جعلی مقدمہ درج کر کے ان کے بہنوئی کو گرفتار کر لیا گیا۔
(14) بریگیڈیئر راشد نصیر نے حکومت کی تبدیلی میں نمایاں کردار ادا کیا۔بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ جج کے فیصلے کے نتیجے میں، عادل راجہ کو اب یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان کے تمام لگائے الزامات سچے ہیں ۔ایک الگ درخواست میں عادل راجہ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) راشد نصیر نے اپنے اخراجات کیلئے250,000پاؤنڈ کی رقم بطور سکیورٹی ادا کی کیونکہ مسٹر راشد نصیر پاکستان میں مقیم ہیں اور برطانیہ میں مقدمہ دائر کر رہے ہیں لیکن جج نے اسے مسترد کر دیا اور بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے وکلاء سے اتفاق کیا کہ وہ دیں گے۔
ایک وعدہ کے مطابق وکیل صرف 4000 ڈالربطور سیکیورٹی رکھیں گے۔ یہ راجہ عادل کی جانب سے بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کو کیس کی پیروی سے روکنے کا ایک حربہ تھا لیکن یہ کوشش منصوبہ بندی کے مطابق کام نہیں کر سکی کیونکہ برطانیہ کے اکاؤنٹ میں250000پاؤنڈ کی رقم کا بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا۔
عادل راجہ نے وکلاء کے ذریعے اپنی درخواست میں ٹرائل کیلئے اپنے گواہوں کا نام ظاہر نہ کرنے کی بھی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے وکلاء کے موقف سے اتفاق کیا اورراجہ عادل کی درخواست کو اپنے گواہوں کا نام ظاہر نہ کرنے کی اجازت دی لیکن صرف گواہوں کے بیانات کا تبادلہ ہونے تک۔
اس کے بعد اگر راجہ اپنے گواہوں کی گمنامی جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مزید درخواست دینے کی ضرورت ہوگی اور عدالت کو اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہوگی کہ وہ اپنے گواہوں کو گمنام رہنے کی اجازت دے۔ (ریٹائرڈ) راشد نصیرگواہان کے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کو چیلنج کر سکتے ہیں اگر وہ ایسا کرتے ہیں توعادل راجہ کیلئے ایک اور بڑادھچکا ہوگا، انہوں نے ایک علیحدہ درخواست میں عدالت سے بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے اس دعوے کو مسترد کرنے کیلئے
بھی کہا تھا کہ انہیں کوئی شدید نقصان نہیں پہنچا۔ جج نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی اور صرف مسٹر راجہ کی درخواست کو ملتوی کر دیا جس پر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے وکلاء نے اتفاق کیا۔ریٹائرڈ فوجی افسر نے عادل راجہ پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا کہ مفرور ریٹائرڈ میجر نے جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر جعلی خبروں سے نقصان پہنچانے کیلئے ان کے بارے میں غلط معلومات پھیلائیں۔
عادل فاروق راجہ نے 14 جون 2022 کو یوٹیوب اور فیس بک کی ٹویٹس اور ویڈیوز کے ذریعے افسر کیخلاف مہم شروع کی۔عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر نے 11 اگست 2022 کو اپنے برطانیہ کے وکلاء کے ذریعے اپنا مقدمہ دائر کیا تھا۔ اپنے ہتک عزت کے دعوے میں، سینئر فوجی افسر نے ہر ایک الزام کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ اس نے میری ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا۔ مستقبل میں مزید نقصان کا امکان۔عادل راجہ اپریل 2022 سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی نمائندگی ڈوٹی سٹریٹ چیمبرز کے کونسلر ڈیوڈ لیمر اور سٹون وائٹ سالیسیٹرز کی عشرت سلطانہ اور سعدیہ قریشی نے کی۔ میجر (ر) عادل فاروق راجہ کی نمائندگی سینٹرل چیمبرز لاء سالیسیٹرز کے مہتاب انور عزیز نے کی۔