پشاور(نیوزڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) قاضی فائز عیسیٰ کو لکھے گئے خط میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے صوبہ خیبرپختونخوا سے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی پر غور نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بدھ کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججوں کی تقرری میں امتیازی سلوک اور جانبداری کے حوالے سے بھاری دل اور مایوس ہو کر خط لکھ رہا ہوں۔
جسٹس ابراہیم نےکہاکہ کہ آپ کارتبہ انصاف اور میرٹ کی عکاسی کرتا ہے اس لئے میں یہ معاملہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں چار آسامیاں تھیں لیکن بلوچستان ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس نعیم اختر افغان کو کر کے صرف ایک آسامی پر کی گئی۔
انہوں نے کہاکہ جب مجھے معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ میں صرف ایک جج اور وہ بھی آپ کے اپنے صوبے سے، اسکے باوجود کہ چار آسامیاں خالی تھیں۔ میں اپنے بھائی مسٹر جسٹس نعیم اختر افغان کی تعیناتی پر خوش ہوں لیکن میری سنیارٹی، اہلیت اور سپریم کورٹ میں آسامیوں کی دستیابی کے باوجود غور کیوں نہیں کیا گیا؟
جسٹس ابراہیم نے کہا کہ وہ پاکستان کی تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز میں دوسرے سینئر ترین چیف جسٹس ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ور سپریم جوڈیشل کونسل آف پاکستان(جے سی پی) کا رکن بھی ہوں۔ مجھے توقع تھی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر تقرری کے لیے مجھے فہرست میں شامل کیا جائے گا۔
انہوں نے لکھا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی طرف سے اگر میں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تعینات ہونے کے لیے موزوں نہ پایا جاتا تو میں جے سی پی کے فیصلے کو خوشی سے قبول کر لیتا۔
انہوں نے خط میں اس یقین کا اظہار کیا کہ ٹیکس دہندگان، جو ہماری تنخواہوں کی ادائیگی کرتے ہیں، توقع کرتے ہیں کہ اسامیاں فوری طور پر پُر کر دی جائیں تاکہ عدالت پوری طاقت سے کام کر سکے اور انصاف فراہم کر سکے۔ تندہی سے کام کرنا فرض ہے۔
چارآسامیوں کے باجودصرف ایک تعیناتی کے فیصلے نے مجھے پریشان کردیا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ میں آسامیوں کو پر نہ کرنے کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں سوچ رہا ہوں لیکن کوئی منطقی اور قائل کرنے والی وجہ ذہن میں نہیں آسکی۔
جسٹس ابراہیم نے کہاکہ وہ 31 سال سے وفاداری کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں، جس کی خصوصیت ثابت قدمی، لگن اور بے شمار شراکتیں ہیں جن سے ان کی رائے میں نہ صرف کمیونٹی کو فائدہ پہنچا بلکہ عدالتی نظام کے اعلیٰ معیار کو بھی برقرار رکھا۔اپنی پوری خدمت کے دوران، میں نے دیانتداری، غیر جانبداری، اور انصاف کے لیے ثابت قدمی کی خوبیوں کو مجسم کرنے کی کوشش کی ہے، جن اصولوں پر مجھے یقین تھا کہ وہ فطری طور پر قابلیت کی بنیاد پر پہچان اور کیریئر کی ترقی کی راہ ہموار کریں گے۔ میں اپنی مادر وطن میں امن و امان کی عجیب صورتحال اور سیاسی بحران کے درمیان ہائی پروفائل مقدمات کا فیصلہ کر رہا ہوں جس میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کا میرا عزم غیر متزلزل اور غیر متزلزل رہا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ عوام کی خدمت کرنے اور ہر شکل میں ناانصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی میری لگن ذاتی فخر کا باعث ہے اور اقدار کے ساتھ میری وابستگی کا ثبوت ہے، ہمیں اپنے پیشے میں بہت عزیز ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک امتیاز ہے کہ اپنے 31 سالہ عدالتی کیرئیر کا ذکر کرتے ہوئے میں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی دیانتداری کو محفوظ رکھتا ہوں کہ میں نے قانونی حدود میں رہتے ہوئے اور بغیر کسی خوف کے اپنے بہترین شعور کے ساتھ انجام دیا۔