اسلام آباد ( اے بی این نیوز )مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جنرل فیض کا نام غلطی سے میرے منہ سے نکلا تھا،بڑی بات ہویاچھوٹی میں جنرل باجوہ اور فیض حمید کو 2018میں دھاندلی کاذمہ دار سمجھتاہوں،زیر بحث ہونے کے بجائے انکو تاریخ کے حوالے کیاجائے،عدم اعتماد کے پیچھے جنرل باجوہ او ر دیگر تھے ،جنرل فیض وہاں نہیں تھے،اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں جو رول ہےوہ اب نہیں ہونا چاہیے،اسٹبلشمنٹ ابھی بھی سیاست
مزید پڑھیں :عمران اسماعیل مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کر دی
میں مداخلت کررہی ہے،مداخلت اور دیگر چیزیں ختم ہونی چاہیے،میں نے وہ بات کی ہے جو حقائق پر مبنی ہے،کیا جنرلز کے اند ر کوئی اوتھ کا احترام ہے؟ ،کیا جب وہ کمیشن میں حلف اٹھاتے ہے تو نہیں کہتے کہ ہم سیاست میں مداخلت نہیں کرتے؟،انکو نہیں پتہ کہ ہم سیاست میں مداخلت کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہتے ہیں ،،مداخلت کرکے اپنا حلف تھوڑتے رہتے ہے،
مجھے پاکستان کے کسی بھی ادارے پر اعتماد نہیں ہے،ہم اس سسٹم کو ٹھیک کرنا چاہتے ہے،ہم نے بہت کچھ برادشت کیا لیکشن ایسابھی تو نہیں ہوسکتا کہ پھر چیخنے اور رونے کی بھی اجازت نہ ہو،،عدم اعتماد کے نظریے کی میں نے حمایت نہیں کی تھی،ہم نے کہا کہ تحریک کی قوت سے تبدیلی لایا جائے۔
فضل الرحمان نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کا حلف اٹھاونگا ،نواز شریف اور آصف علی زرداری سے بھی بات ہوسکتی ہے،حالات کے بارے میں سب کو پتہ ہیں ،سیاستدان کچھ بولےتو جیسے بم پھٹ جائے،جو گزرگئی وہ گزرگئی اب ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں،کیا جو میں کہہ رہا ہوں وہ عوام کو پتہ نہیں ؟ کل اس پر لوگ کتابیں
لکھیں گے،بہت سارے افیسرز نے میرے ساتھ اکیلےمیں ملاقاتیں کیں،پی ٹی آئی حکومت کو گرانے میں کسی کی سازش نہیں تھی،امریکہ نے بھی کہا کہ کوئی سازش نہیں ،اداروں نے بھی کہا،انتخابات شفاف نہیں ہوئیں،کل ہم نے اپنے کارکنوں کو روکا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت ہماری مہمان ہے،کارکنوں سے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر کوئی غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے،پی ٹی آئی قیادت نے مثبت بات کی ہے اب آگے دیکھیں گے۔