تل ابیب (نیوزڈیسک)اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت بنے ہوئے ابھی محض ایک ہفتے سے چند زائد دن گزرے ہیں، مگر جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے درد سر شروع ہو گئی ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انتہا پسند دائیں بازو کی جماعت کے سربراہ اور نیتن یاہو کی کابینہ کے ایک اہم رکن ایتمار بین گویر نے مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز دراندازی کا ارتکاب کیا جس نے امریکی سفارت کاروں کو ناراض کر دیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں مزید تنازعات کا سلسلہ شروع کریں گے۔ جن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا معاملہ بھی شامل ہو گا۔ کیونکہ نیتن یاہو کی حکومت میں اس نوع کے کئی اور بھی انتہائی دائیں بازو کے لوگ موجود ہیں۔ادھر نیتن یاہو کی انتظامیہ نے اپنے تازہ ترین اقدام کے طور پر ان فلسطینیوں کو سزا دینے کے اقدامات بھی کیے ہیں جو امریکی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست تعلقات بناتے ہیں۔ یقیناً یہ نیتن یاہو کو پسند نہیں۔یاہو کے لیے اس تناظر میں جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس امداد کو بحال کرنے جسے ٹرمپ انتظامیہ نے بند کر دیا تھا اچھا نہیں لگتا۔ مزید یہ کہ جو بائیڈن انتظامیہ نے فلسطینی حکام کو امریکی دوروں کی بھی اجازت دی ہے۔جبکہ تل ابیب میں بننے والی نئی اسرائیلی بھی حکومت اس لیے نا خوشگواری کا پہلو رکھتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی سکیورٹی ٹیم مشرق وسطیٰ سےاپنی توجہ ہٹا کر اپنی توجہ چین اور روس کی طرف مبذول کرنا چاہتی ہے۔اب جبکہ ایوان نمائندگان میں ری پبلکن آئے ہیں ان کی کوشش ہے کہ2024 کے صدارتی انتخاب سے پہلے جو بائیڈن انتظامیہ کو اسرائیل کے لیے غیر دوستانہ ثابت کریں۔یہ چیزیں جوبائیڈن انتظامیہ کے لیے چیلنج بن سکتی ہیں۔ اس لیے جو بائیڈن انتظامیہ جنوری کے وسط تک اپنے قومی سلامتی کے مشیر کو اسرائیل بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاکہ امریکی انتظامیہ اور عرب اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو بڑھنے سے روکیں۔