اسلام آباد(نیوز ڈیسک )وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جنیوا کانفرنس کو ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور بحالی و تعمیر نو کے ساتھ ساتھ موسمیاتی اعتبار سے پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانے کے ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتائج سے لاکھوں سیلاب متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا، عالمی برادری بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی، جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کے لئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے 1,700 افراد کی جانیں گئیں، 33 ملین لوگ متاثر ہوئے جبکہ سندھ اور بلوچستان صوبوں کے بڑے حصے بدستور زیر آب ہیں۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد دوگنی ہو کر 14 ملین ہو گئی ہے، مزید 9 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقے اب مستقل جھیلوں کے ایک بڑے سلسلے کی طرح نظر آتے ہیں، اس پانی کو ایک سال سے کم وقت میں نہیں نکالا جا سکتا جبکہ تشویش یہ ہے کہ ان علاقوں میں جولائی 2023 تک دوبارہ سیلاب آسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان صرف سیلاب سے ہی نہیں بلکہ بار بار رونما ہونے والی آب و ہوا کی شدتوں سے بھی دوچار ہے، اس سے پہلے 2022 میں ملک ایک ہیٹ ویو کی لپیٹ میں رہا جس سے خشک سالی اور جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانیوں نے اس تازہ ترین آفت کا مثالی انداز میں مقابلہ کیا۔ پہلے سے ہی شدید معاشی بحران کے باوجود حکومت نے 20 لاکھ سے زیادہ گھرانوں کو 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی براہ راست نقد رقم کی منتقلی کے لئے فنڈز کا انتظام کرنے کے لئے کوشش کی۔ مجموعی طور پر ہم اپنے محدود وسائل سے ہنگامی امداد میں تقریباً 1.5 بلین ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری اور پاکستان کے دوستوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بدترین صورتحال سے بچنے میں ہماری مدد کی جبکہ عالمی ادارہ صحت نے اس صورتحال کو اعلیٰ سطح کی صحت کی ایمرجنسی قرار دیا تھا، لیکن ہم موثر کام کی وجہ سے امراض کو پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ شہروں اور دیہاتوں کے درمیان تباہ شدہ مواصلاتی نیٹ ورک کو بھی بہت جلد بحال کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ گھر، 14,000 کلومیٹر سڑکیں اور 23,000 سکول اور کلینک تباہ ہو چکے ہیں۔ عالمی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے کیے گئے آفات کے بعد کی ضرورتوں کے تخمینہ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جو کہ پاکستان کی کل جی ڈی پی کے 10ویں حصہ کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اکیلااس چیلنج سے نہیں نمٹ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور میں 9 جنوری کو جنیوا میں کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پاکستان انٹرنیشنل کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں عالمی رہنما، بین الاقوامی اداروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے نمائندے اور پاکستان کے دوست اس کے ساتھ تعااون اور یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سیلاب کے بعد کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے ایک جامع روڈ میپ بھی پیش کریں گے، جسے ورلڈ بینک، اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے فوری چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تین سال کی مدت میں کم از کم 16.3 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاکستان آدھی رقم اپنے وسائل سے پورا کرے گا لیکن اس فرق کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اپنے دوطرفہ اور کثیر جہتی شراکت داروں کی مسلسل معاونت درکار ہو گی ۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی لچک پیدا کرنے کے لئے طویل المدتی وژن کے تحت 10 سال کی مدت میں 13.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ بہتر مواصلاتی انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے زیادہ مضبوط نظام کی تعمیر، اور مستقبل کی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے موثر ابتدائی انتباہی نظام کو ڈیزائن کرنا پاکستان کے لئے اب ایک لازمی امر ہے۔انہوں نے کہا کہ جنیوا کانفرنس ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہے، اس سے لاکھوں متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا اور عالمی برادری ان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب فطرت کی قوتوں کے رحم و کرم پر ہیں جو سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتیں اور ہم صرف مشترکہ کوششوں سے ہی ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ امید ہے کہ جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کےلئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔