ابھی حال ہی میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیاہے۔ انہیں باقاعدہ ریڈ کارپٹ رسپیشن دیا گیا انہوں نے امریکی کانگریس سے بھی خطاب کیا جس میں بھارت کی ترقی کے علاوہ اپنے پڑوسی ملک پاکستان ( کانام لئے بغیر ) دہشت گردی کے حوالے سے بدنا م کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں بھی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا نام لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جنوبی ایشیا میں جس قسم کی دہشت گردی ہورہی ہے اس میں پاکستان ملو ث ہے۔ حالانکہ امریکہ اور بھارت کا یہ بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے ۔ محض بھارت کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایاجارہاہے۔ حالانکہ یہ ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ پاکستان خود دہشت گرد ی کا شکار ہے جس میں بھارت کے ملوث ہونے سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے۔ بلوچستان میں بھارت کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے کون واقف نہیں ہے؟۔ ان کا ایک دہشت گرد کلبھوشن یادیو نے جس طرح بلوچستان اورکراچی میں دہشت گردی کرائی ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے اور اس کی شدید مذمت بھی کی ہے۔
اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہاہوں تو تربت میں ایک سرکاری گاڑی پر خودکش حملہ کیا گیا ‘ جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان کی سرحدوں سے باہر بیٹھے ہوئے دشمن پاکستان کو اندرونی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ امریکہ (جوپاکستان کا اب بھی دوست ہے) اس کو مندرجہ وبالا حقائق کی روشنی میں بھارت کو سفارتی اور سیاسی ذرائع سے پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں سے روکناچاہیے‘ ورنہ اس خطے میں(جنوبی ایشیا) میں کبھی بھی ا من قائم نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان کے عوام امریکہ سے اچھے اور خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں اور پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے مراسم کو بڑی اہمیت دیتاہے۔ پاکستان یہ نہیں چاہتاہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرے۔ لیکن وہ یہ ضرور چاہتاہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے نہ تو بدنام کیاجائے اور نہ ہی اس کے امن کے قیام میں عالمی رول کی نفی کی جائے‘ ویسے بھی پاکستان نے امریکہ کی خاطرافغانستان میں روس کی مداخلت کے خلاف جوجنگ لڑی ہے اس کا خود امریکہ معترف ہے بلکہ پاکستان میں افغان وار کی وجہ سے جو سماجی اور ثقافتی افراتفری پھیلی ہے اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام اب بھی بھگت رہے ہیں۔ کیا امریکہ اس حقیقت سے انکار کرسکتاہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں120ارب ڈالرز سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے جبکہ اسی ہزار سویلین اور فوجیوں نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیاہے۔ چنانچہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جوقربانی دی کی ہے اس کے پیش نظر پاکستان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر بغیر کسی ثبوت کے دہشت گردی کرانے میں ملوث کیا جارہا ہے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے معاشی اور فوجی تعلقات کو بہت اہمیت دیتاہے۔ بھارت اس خطے میں چین کے بعد معاشی طور پر ایک ترقی کرتاہوا ملک ہے‘ اس کی اکانومی پانچویں نمبر پر ہے‘ پوری دنیا اس کی پھیلتی ہوئی مارکیٹ میں اپنا حصہ وصول کررہی ہے اور بھارت بھی اپنی مضبوط معیشت کی وجہ سے سفارتی طور پر تمام بڑے ممالک سے فائدہ اٹھارہاہے۔لیکن بھارت کی ترقی کامطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان کی بلاوجہ مذمت کرکے اس کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے؟۔ پاکستان کو امریکہ اس لئے زیادہ پسند نہیں کررہاہے کہ پاکستان چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کررہاہے ‘ جبکہ سی پیک کی کامیابی نے پاکستان کو معاشی طور پر ایک بڑا سہارادیا ہے شایدا مریکہ کو پاکستان کا یہ سیاسی ومعاشی طرز عمل پسند نہیں ہے‘ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی سے امریکہ کے مفادات پرکسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہورہے ہیں‘ بلکہ پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ امریکہ اور چین اپنے تنازعات پرامن طریقے سے حل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آئیں تاکہ پوری دنیا چین اور امریکہ کی دوستی سے مستفید ہوسکے۔ چینی صدر کا بھی یہی خیال ہے جس کااظہار انہوں نے ابھی حال ہی میں امریکی سیکرٹری خارجہ سے بیجنگ ملاقات میں کیاہے۔ تاہم بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندرونی معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اس کا رویہ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ ہے‘ یہاں تک کہ انہیں مسجدوں میں عبادت کیلئے جانے کی راہ میں آر ایس ایس کے غنڈے رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں بلکہ تنگ بھی کرتے ہیں۔ یہی حال مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا ہے جہاں بھارت کی سفاک فوج نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ بھارت کے اس رویے کے خلاف امریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مذمت کی ہے۔ چنانچہ امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ بھارت سے متعلق پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی جانب سے جو شکایتیں ہورہی ہیں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ جنوبی ایشیا میں امن کے حوالے سے صورتحال کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے‘ جس کو اندرنی طور پر سنگین مسائل کا سامنا ہے‘ جس کو وہ امریکہ کی مدد سے ٹھیک کرناچاہتا ہے۔ جبکہ چین پاکستان دوستی امریکہ کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی امریکی مفادات پر اس دوستی سے کسی قسم کی ضرب پڑتی ہے۔ روح مسلمان میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زبان دیکھئیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتاہے کیا گنبد نیلوفری رنگ بدلتاہے کیا (علامہ اقبالؒ)