واشنگٹن (اے بی این نیوز)ٹائی ٹینک کے ملبہ تک پہچنے کیلئے جانے والی ٹا ئٹن آخر کیسے تباہ ہو ئی یہ ایک ایسا اچھوتا سوال ہے جو ہر ذی شعور کے ذہن میں گھوم رہا ہے کہ جو پانچ افراد گئے تھے
وہ یقینی طور پر دنیا کے امیر ترین لوگ تھے پھر آخر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کروڑوں روپے دے کر کیونکر اپنے لئے موت خریدی جبکہ حقیقت ایسی ہے کہ شاید ان کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو نے جا رہا ہے،
اس ٹا ئٹن میں دو پاکستانی بھی تھے اور وہ دونوں باپ بیٹا تھے اور بیٹے نے فادرز ڈے پر باپ کو خوش کرنے کے لئے وہ اس سفر پر روانہ ہوا،کیا معلوم تھا کہ ان سب کا یہ سفر آخری ثابت ہو گا، اس کی تباہی کے حواکے سے تحقیقات شروع ہو گئی ہیں،اس حوالے سے جہاز سازی کے ایک پروفیسر نے بتایا کہ ٹائٹن میں موجود افراد بیس ملی سیکنڈ میں ہلاک ہو گئے ہو نگے ان کے دماغ نے کو ئی سگنل ہی نہیں دیا ہو گا کہ ان کے ساتھ کیا ہو نے جارہا ہے
کیونکہ انسانی دماغ کم از کم25 ملی سیکنڈ میں کسی بھی معا ملے پرر یسپانس دیتا ہے، اور یہ ٹائٹن ایک برتن کی طرح پچک گئی ہو گی کیونکہ سمند کی گہرائی میں شد ید دباو ہو تا ہے، کہا جارہا ہے کہ یہ ٹائٹن بہت زیادہ چار کلومیٹر تک گہر ئی میںا جا سکتی تھی جبکہ جہاں سے اس آبدوز کی باقیات ملی ہیں اس جگہ سمندر کی گہرائی 8.3 کلو میٹر ہے، اس بدقسمت آبدوزکا ایک گھنٹے پینتالیس منٹ بعد ہی امریکی کوسٹ گارڈ سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا،
کوسٹ گارڈ کے مطابق آبدوز ایک تباہ کن دھماکے سے تباہ ہو ئی اور یہ دھماکہ سمندر میں دباو کی وجہ سے ہوا، یہ دباو ایک خاص حجم رکھتا ہے اور جب آپ سمندر میں غوطہ زن ہو تے ہیں تو دباو میں اضافہ ہو جاتا ہے، واضح رہے کہ ٹا ئٹینک کے ملبے تک پہچنے کے لئے 375 اور 400کے درمیان فضائی دباو کا سامنا کر نا پڑا ہو گا، پروفیسر فوسل نے اس دباو کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جیسے آپ کے پاس ایک سوڈےکا ٹن ہے آپ اس کو بری طرح کچل دیتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹا ئٹن کا دھماکہ بھی اسی طرح ہوا ہو گا، آبدوز کا اندورو نی حصہ اس بری طرح ایک دم پچک گیا ہو گا،مرنے والوں کو پتہ ہی نہیں چلا ہو گا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، آبدوز کے اندر سب لوگ بیس ملی سیکنڈ کے اندر اندر ہلاک ہو چکے ہو نگے،
پروفیسر نے مزید بتایا کہ اس پورے عمل کو انسانی دماغ بھی نہیں سمجھ پایا ہو گا کیونکہ یہ سب کچھ صرف بیس ملی سیکنڈ میں ہوا ہو گا، ٹائٹن کی تیاری میں کئی نقائص تھے یہ آبدوز کاربن فائبر اور ٹا ئٹینیم سے تیار کی گئی تھی ،اوشین گیٹ کا دعوی ٰ تھا کہ یہ چار کلومیٹر تک نیچے جا سکتی ہے جبکہ یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ 1300 میٹر تک کا پریشر برداشت کر سکتی ہے، تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس ٹائٹن کو انسپکٹرز سے باقاعدہ چیک بھی نہیں کرایا گیا تھا، پھر سوال یہ پیدا ہو تا
یہ دنیا کے اتنے امیر ترین لوگ یہ رسک کیوں لے کر گئے یا ان کو مس گائیڈ کیا گیا ہے ،ان سوالوں کے جوابات ملنے تک ایک تشنگی رہے گی کہ آکر پس پردہ کیا اصل حقائق ہیں۔