میانمار ( اے بی این نیوز ) میانمار میں سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہو گئی ہے، جہاں حکومت نے بغاوت اور بڑھتے ہوئے تشدد کے خدشات کے پیش نظر نو ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ ممکنہ فسادات اور طاقت کے زور پر حکومت گرانے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔ میانمار میں حالیہ مہینوں کے دوران فوج اور باغی گروہوں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے، جس نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں اور مقامی ذرائع کے مطابق میانمار کے مشرقی حصے اور تھائی لینڈ کی سرحدی پٹی پر قائم جبری قید خانوں سے دو سو سے زائد غیر ملکیوں کو بازیاب کرایا گیا ہے۔ ان افراد کو مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے قید میں رکھا گیا تھا اور ان سے جبری مشقت لی جا رہی تھی۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ قید خانے زیادہ تر ایسے علاقوں میں قائم تھے جہاں حکومتی عملداری کمزور ہے اور انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس سرگرم ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک مقامی گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ مراکز طویل عرصے سے انسانی اسمگلنگ اور جرائم پیشہ سرگرمیوں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ ان افراد کی رہائی کے بعد اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کرے اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ نو ریاستوں میں ایمرجنسی کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے کہ میانمار میں فوجی قیادت کو ملک کے اندرونی حالات پر مکمل کنٹرول برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس پیش رفت نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے، کیونکہ میانمار پہلے ہی بین الاقوامی تنہائی اور معاشی پابندیوں کا شکار ہے۔
مزید پڑھیں :خیبرپختونخوا ہاؤس کے اہم بلاک میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی