کراچی ( اےبی این نیوز) بین الاقوامی کمیشن آف جیورسٹ (آئی سی جے) نے 26ویں آئینی ترمیم کو “عدلیہ کی آزادی پر کاری ضرب” قرار دیا ہے۔ آئی سی جے نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس ترمیم کو قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
عدلیہ کی آزادی کو دھچکا
آئی سی جے کے سیکرٹری جنرل، سینٹیاگو کینٹن نے کہا کہ آئینی ترمیم کے نتیجے میں عدالتی تقرریوں اور عدلیہ کی انتظامیہ پر غیر معمولی سیاسی اثر و رسوخ پیدا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کے ذریعے عدلیہ کی صلاحیت کو محدود کیا جا رہا ہے، تاکہ وہ ریاست کی دیگر شاخوں کی زیادتیوں کے خلاف کھڑی نہ ہو سکے اور انسانی حقوق کا تحفظ موثر طریقے سے نہ کر سکے۔
بل کی منظوری کا خفیہ اور تیز رفتار عمل
آئی سی جے نے تنقید کی کہ آئینی ترمیم کا عمل غیر معمولی تیزی سے مکمل کیا گیا، جس میں مسودے کی تفصیلات خفیہ رکھی گئیں اور عوامی مشاورت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ایسی اہم آئینی ترمیم کو صرف 24 گھنٹوں میں خفیہ طور پر منظور کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔”
قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی علیحدگی کی خلاف ورزی
آئی سی جے نے بیان دیا کہ یہ ترمیم قانون سازی کے عمل میں شہریوں اور ان کے منتخب نمائندوں کے حق کی خلاف ورزی ہے، جس سے قانون کی حکمرانی اور اختیارات کی علیحدگی کے بنیادی اصول پامال ہو رہے ہیں۔
عدلیہ کو ایگزیکٹو کے کنٹرول میں لانے کی کوشش
آئی سی جے نے نشاندہی کی کہ یہ ترمیم عدلیہ کو غیر ضروری طور پر ایگزیکٹو اور پارلیمانی کنٹرول کے تابع کر رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں عدالتی تقرریوں میں براہ راست سیاسی اثر و رسوخ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ جے سی پی کے عدالتی اراکین کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور عدالتی بینچ بنانے کے اختیارات سیاسی اہمیت کے مقدمات کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کی حیثیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
جے سی پی کے سیاسی اثرات
آئی سی جے نے یہ بھی کہا کہ جے سی پی کے عدالتی بینچوں کے تعین کا اختیار اس بات کی ضمانت نہیں دے گا کہ یہ بینچ آزاد اور غیر جانبدار ہوں گے، اور اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ سیاسی اثرات کی بنا پر فیصلے متاثر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے چیف جسٹس کی تقرری میں ترامیم پر آئی سی جے کا مؤقف
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) نے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل میں کی جانے والی ترامیم پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آئی سی جے کے مطابق، یہ ترامیم ایسی کوئی بنیاد یا معیار فراہم نہیں کرتیں جس کی بنیاد پر ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی اعلیٰ جج کو نامزد کر سکے۔ اس عمل میں شفافیت کی کمی اور واضح معیارات کی غیر موجودگی عدلیہ کی آزادی کو متاثر کر سکتی ہے۔
عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت
سینٹیاگو کینٹن، آئی سی جے کے نمائندے، نے کہا کہ عدالتی نظام میں کچھ اصلاحات کی ضرورت ہو سکتی ہے تاکہ عدلیہ کو مزید مؤثر اور جوابدہ بنایا جا سکے۔ اس میں عدالتی تقرری کے عمل کو زیادہ شفاف اور جامع بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ تاہم، ان ترامیم کو عدلیہ کو محکوم بنانے اور ایگزیکٹو کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے، جو اختیارات کی علیحدگی اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی
آئی سی جے کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ یہ آرٹیکل قانون کے مطابق قائم ایک قابل، آزاد اور غیر جانبدار ٹریبونل کے ذریعے منصفانہ اور عوامی سماعت کا حق فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 10 اے بھی منصفانہ ٹرائل کے حق کو تسلیم کرتا ہے، اور یہ ترامیم اس حق کے منافی ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کا مؤقف
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی، جو آئی سی سی پی آر کی دفعات کی تشریح کرتی ہے، نے کہا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کا حق ایک مطلق حق ہے اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ وہ صورتحال جہاں عدلیہ اور ایگزیکٹو کی اہلیتیں واضح طور پر الگ نہ ہوں یا ایگزیکٹو عدلیہ پر کنٹرول رکھتا ہو، آزاد ٹریبونل کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتی۔
عدلیہ کی آزادی کے اقدامات
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ریاستوں کو عدلیہ کی آزادی کی ضمانت کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس میں ججوں کو سیاسی دباؤ سے محفوظ رکھنا اور ان کی تقرری، ترقی، معطلی اور برطرفی کے عمل کو معروضی اور شفاف بنانا شامل ہے۔
عدالتی تقرری کے اداروں کی آزادی
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے ججوں اور وکلاء کی آزادی نے بارہا کہا ہے کہ عدالتی تقرری کے ادارے ایگزیکٹو سے آزاد ہونے چاہئیں اور ان میں زیادہ تر جج اور قانونی پیشے کے ارکان شامل ہوں۔ اس کے علاوہ، ان اداروں کو شفاف طریقہ کار کے تحت کام کرنا چاہیے تاکہ عدلیہ کی آزادی برقرار رکھی جا سکے۔
اقوام متحدہ کے بنیادی اصول برائے عدلیہ کی آزادی
اقوام متحدہ کے بنیادی اصول برائے عدلیہ کی آزادی میں واضح کیا گیا ہے کہ ججوں کی تقرری اور معطلی کے فیصلے عدالتی طرز عمل کے معیار کے مطابق ہونے چاہئیں۔ ان اصولوں کے تحت ججوں کو صرف نااہلی یا ایسے رویے کی وجہ سے ہٹایا جا سکتا ہے جو ان کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ بنے۔
مزید پڑھیں :مخصوص نشستوں کاکیس،چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا ،اس پر عملدرآمد “بائنڈنگ” نہیں،2 ججز کا تفصیلی اقلیتی فیصلہ جاری