اسلام آباد (اے بی این نیوز ) بنگلہ دیش کے سینئر صحافی سلیم صمد نے اے بی این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کیخلاف طلباء نے یکم جولائی سے احتجاج شروع کررکھا تھا ۔بنگلہ دیش کے طلبہ اور عوام ایک ماہ سے کوٹا سسٹم کے خلاف سراپا احتجاج تھے جو بعد ازاں حسینہ حکومت کے جابرانہ اور آمرانہ رویے کے سبب سول نا فرمانی اور حسینہ واجد ہٹاؤ تحریک میں تبدیل ہوگیا۔جس میں عوام کی بڑی تعداد بھی شریک ہوگئی ۔
عوام کی طلباء احتجاج میں شمولیت کا معاملہ تب بنا جب شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ ماہ 14 جولائی کو اپنی ایک اشتعال انگیز تقریر میں مظاہرین کو ’’رضاکار‘‘ کہا تھا جس کو بنگلہ دیش میں غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے اس بیان کے بعد عوام اور مظاہرین میں مزید اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوا،
احتجاج ملک کے طول وعرض میں پھیل گیا جو بالآخر حسینہ واجد کے طویل اقتدار کے خاتمے کا باعث بنا۔ ایک سوال کے جواب میں بنگلہ دیشی سینئر صحافی سلیم صمد کا کہنا تھا کہ پہلے تو بنگلہ دیشی فوج معاملات سلجھانے کی کوشش کرتی رہی تاہم جب بنگلہ دیشی عوام اور طلباء تنظیموں کا احتجاج زورپکڑ گیا تو فوج بھی ان مظاہروں میں شامل ہوگئی ۔
3 اگست کو وزیراعظم حسینہ واجد کے بیان کیخلاف طلباء بنگلہ دیش کی تمام یونیورسٹیاں بند کرکے سڑکوں پر آگئے ، طلباء کے مظاہروں کو روکنے کیلئے پولیس نے طلباء اور مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائیں جس سے مزید انارکی پھیل گئی ۔ پھر 3 اگست کو طلباء نے تمام ہوسٹل اور یونیورسٹیاں بند کرکے دوبارہ سڑکوں پر آگئے ۔
5 اگست کی صبح 9 بجے تک بنگلہ دیش میں صورتحال بہت زیادہ خراب نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ہزاروں احتجاجی طلبا کا ایک گروپ غازی پور بارڈر سے لانگ مارچ میں ڈھاکا میں داخل ہوا، جس کے بعد جب حالات خراب ہونے لگے۔ پانچ اگست کو ایک بجے کے قریب فوج کی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوا، جس کے بعد وہ فیصلہ ہوا جس کا آرمی چیف نے اعلان کیا اور حسینہ واجد کو ملک چھوڑنےکیلئے 45 منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد بنگلہ دیش کی فوج نے شیخ حسینہ کو مطلع کیا کہ طلبا کے لانگ مارچ کے دوران انہیں فوج نہیں روکے گی،جیسے ہی ہزاروں مظاہرین نے وزیراعظم ہائوس کا گھیرائو کیا تو حسینہ واجد کو فرار ہونے کیلئے ہیلی کاپٹر فراہم کیا اور بنگلہ دیشی آرمی چیف نے عبوری حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا ۔