راولپنڈی ( اے بی این نیوز )جمہوریت کی بنیاد اخلاقی معیار ہے،جمہوریت اخلاقی قوت پر چلائی جاتی ہے۔ اگر جمہوریت میں اخلاقیات کا فقدان ہو تو وہ جمہوریت نہیں کہلاتی۔ جس طرح سے پاکستان میں ڈنڈے سے جمہوریت چلائی جا رہی ہےیہ جمہوریت کی تضحیک ہے،بشریٰ بی بی کو جس طریقے سے اڈیالہ جیل میں پانچ روز میں دو سزائیں سنائی گئیں، اس مس کنڈکٹ پر جج ابو الحسنات اور جج قدرت اللہ کے خلاف ریفرنس دائر کریں گے۔ القادر ٹرسٹ کیس بھی انہی کیسز کی رفتار پر چلایا جا رہا ہے جبکہ دیگر سیاستدانوں کے مقدمات جو کہ انہی عدالتوں میں زیرِ التواء ہیں ، ان پر لمبی لمبی تاریخیں دی جاتی ہیں۔
اس کے برعکس ہمارے خلاف کیسز میں ایک ہفتے میں تین تین، چار چارپیشیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ٹرائل کی کاروائی نارمل انداز میں آگے بڑھائی جائے،ہمارا یہ سوال ہے کہ ہماری نو مئی اور آٹھ فروری کے حوالے سے پٹیشنز کو کیوں نہیں سنا جا رہا، ہمارا ٹرائل بھی نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے ٹرائل کی طرز پر چلایا جائے،یہ نظامِ انصاف کی شکست ہے ، اس سے عام آدمی کا نظام ِ انصاف سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
مزید پڑھیں :گورنر بیان بازی کرینگے تو پی ٹی آئی کی جانب سے بھی جواب آئے گا،بیرسٹر سیف
اس وقت ملک دو حصوں میں بٹا ہو ا ہے ، ایک فارم 47 والے جنہیں فارم 47 کے ذریعے جتوایا گیا اور اقتدار سونپا گیا۔ فارم 47 کے بینیفیشریز سے جب کوئی سوال کرتا ہے تو وہ اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی ذاتیات پر اتر آتے ہیں چاہے ان کی اپنی ذاتی حیثیت کچھ بھی نہ ہو۔جھوٹ کو بچانے کے لیے ججز اور میڈیا پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے،دوسری جانب فارم 45 والے ہیں جن پر ہر قسم کا ظلم اور تشدد کیا گیا، جعلی فارم 45 کے ذریعے ان کی جیت کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا ۔
یہ سارا نظام جھوٹ پر مبنی ہے، اس کا واحد مقصد جھوٹ کی حفاظت کرنا ہے،صدر ، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تمام اس جھوٹے نظام کے نمائندے ہیں جنہیں جھوٹے طریقے سے ان کرسیوں پر بٹھایا گیا ہےاور ان کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں، یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ تمام جماعتوں کو جلسوں کی اجازت ہے لیکن تحریک انصاف جلسہ نہیں کر سکتی؟ہماری گزشتہ حکومت ہو یا خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت ، کس جگہ پر ہم نے جلسے جلوس کے انعقاد پر پابندی لگائی ہے؟لیکن یہاں ہم کہیں پر بھی جلسے کیلئے اجازت مانگنے جاتے ہیں تو اس پر جھوٹے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں۔
اس جھوٹے نظام کا نمائندہ فارم 47 کا بینیفیشری گورنر خیبر پختونخواہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین پر ذاتی حملے کر رہا ہے، اور اسی جعلی نظام کے جعلی نمائندوں نے جسٹس بابر ستار کے خلاف بیانات جاری کیے اور پریس کانفرنسز کیں۔جعلی فارم 47 کی پیداوار ماڈل ٹاؤن کا وہ شخص جو 100 ووٹ بھی حاصل نہ کر سکا، اسے جعلی طریقے سے ایم این اے بنا دیا گیا اور اب وہ اپنے آقاؤں کے حکم پر جسٹس بابر ستار کے خلاف بیانات دے رہا ہے۔
مزید پڑھیں :ہیٹ ویو سے بچائو کیلئے ایس او پیز جاری کر د یئے گئے
جنگل کے بادشاہ نے سارے نظام پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہاں وہی قانون ہے جو جنگل کا بادشاہ کہتا ہے،ہم نے پنجاب اسمبلی اس لیے تحلیل کی کیونکہ جنگل کا بادشاہ ہماری حکومت گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہمارے ایم پی ایز کو ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا ، اور جمہوریت کا یہی اصول ہوتا ہے کہ جب اس قسم کے حالات پیدا ہو جائیں تو دوبارہ عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ہم نے جمہوری اصول اپناتے ہوئے دوبارہ عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی حکومت گرا دی۔
انہوں نے اسی طرح ہمارے لوگوں پر دباؤ ڈالتے ہوئے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہماری حکومتیں گرائیں اور Puppetsکھڑے کر دیے جن کو عوام کی کوئی حمایت حاصل نہیں۔ جب اس طرح کی حکومتیں قائم کی جاتی ہیں تو پھر آزاد کشمیر جیسا ردعمل آتا ہے،بلوچستان میں بھی اسی طرح کے حالات ہیں جہاں عوامی امنگوں کے خلاف حکومتیں بنائی جاتی ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں وہاں بھی ایسے حالات جنم لیتے ہیں،مشرقی پاکستان جس کا میں خود گواہ ہوں ، 1971 جب میں خود وہاں موجود تھا اور میں نے دیکھا کہ وہ لوگ علیحدگی نہیں بلکہ اپنے حقوق چاہتے تھے لیکن جب ان پر کریک ڈاؤن کیا گیا اور ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے گئے تو وہ علیحدگی کی طر ف چلے گئے ۔ ان کیساتھ ظلم و زیادتی جعلی اور جھوٹے نظام کی وجہ سے ہوئی تھی ، آج بھی اسی جعلی جھوٹے نظام سے ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہے۔
مزید پڑھیں :جناح ہاؤس کیس: یاسمین راشد اورعمر سرفراز چیمہ کی ضمانت منظور
سپریم کورٹ میں گزشتہ روز نیب ترامیم کیس میں اپنی پیشی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ،”میں بولنے کیلئے مکمل تیار تھا لیکن مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کیس کی کارروائی کو لائیو نشر کیا جانا چاہیئے تھا ۔ امید کرتا ہوں اگلی بار مجھے بولنے کا موقع دیا جائے گا،یہ لوگ صرف ایک آدمی سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس کی تصویر نشر کرنے سے بھی ڈرتے ہیں،یہ ملک ایلیٹ کلچر کا شکار ہے، امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ اشرافیہ نے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے،نظام اس جگہ پہنچ چکا ہے کہ شاہ محمود قریشی اور پرویز الہیٰ جیسے بڑے سیاستدان جیلوں میں قید ہیں، وہ اگر آج یہ کہہ دیں کہ تحریک انصاف چھوڑ رہے ہیں تو جیل سے نکل جائیں گے ۔
مذاکرات پر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، “فارم 47 والوں سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے، نگران وزیراعظم کے بیان کے بعد اس حکومت کےقائم رہنے کا کیا جواز ہے، کاکڑ نے حنیف عباسی کو طعنہ دے کر شہباز شریف کو پیغام بھیجا۔ انوار الحق کاکڑ اور کمشنر راولپنڈی کے بیانات کی روشنی میں فارم 47 کی حقیقت کھلے گی تو یہ حکومت خود بخود گر جائے گی، ان سے کیا بات کروں،چیف جسٹس ایک دبنگ آدمی ہیں، چیف جسٹس نے کہا بھٹو کو فئیر ٹرائل نہیں ملا، میں چیف جسٹس سے سوال کرتا ہوں کیا مجھے فئیر ٹرائل دیا جا رہا ہے ؟ہم امید کرتے ہیں کہ انصاف ہو گا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یاسمین راشد اور باقی خواتین کا کیا قصور ہے ؟جس طرح ملک چلایا جارہا ہے اسے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی، یہ جنگ آمریت کے خلاف جنگ چل رہی ہے،آرمی چیف کو خط اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے لکھوں گا، وکلا کو خط تیار کرنے کی ہدایات دے دی ہیں ۔ اس خط میں بتاؤں گا کہ آزاد کشمیر میں جو ہو رہا ہے اور ملک جہاں جا رہا ہے اس پر ہمیں سوچنا پڑے گا، فوج اور لوگوں کو آمنے سامنے نہیں کیا جاتا،فوج ملک کا ایک نہایت اہم ادارہ ہے ۔ عوام اور فوج کو آمنے سامنے کبھی نہیں آنا چاہیئے لیکن ہم آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں ،بنیادی انسانی حقوق میں سب سے بڑا حق اپنے نمائندوں کو خود منتخب کرنے کا اختیار ہے۔